Labels
- Allah (4)
- Insan (Human) (1)
- Islam (3)
- Islamic (2)
- Money (1)
- Nasihat (1)
- Rijalullah (1)
- Wazaif (1)
- الحمد للہ رب العالمین (1)
- بڑی لکیر (1)
- سکندر جب گیا دنیاسے (1)
الحمد للہ رب العالمین
Thursday, May 20, 2010
الحمد للہ رب العالمین
(ریحان احمدیوسفی)
میرے ایک شناساکی دعا کا پہلا جملہ کچھ اس طرح ہوتا ہے:
’’یااللہ ! جس طرح مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نعمت جو مجھے یا کسی کو بھی ملی ، اس کا دینے والا صرف تو ہے ، اسی طرح مجھے اس بات کا بھی کامل یقین ہے کہ جس کو جو ملا وہ اس کی کسی خوبی کی بنا پر نہیں ملا بلکہ صرف تیری خوبیوں کی بنا پر ملاہے۔ میں تیری ہر نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیری ہر خوبی پر تیری حمد بیان کرتا ہوں۔‘‘
بلا شبہ یہ الفاظ معرفت کے الفاظ ہیں۔ یہ اس عظیم حقیقت کا اعتراف ہیں جو عالم میں چار سو پھیلی ہے۔ یہ توحید کی مکمل تعریف ہے۔ خدا کو ایک ماننا جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ اسے ہر نعمت، خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ ماناجائے ۔پہلی بات سے پہلو تہی کے نتیجے میں شرک پیدا ہوتا ہے تو دوسری بات کو فراموش کرکے انکارِ خدا یا کم از کم اعراضِ خدا کا ذہن جنم لیتا ہے۔ شرک والی بات سے تواکثر لوگ واقف ہیں مگر دوسری بات کا شعور عام نہیں اس لیے آج کل اکثر لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو ان گنت نعمتوں کے درمیان پاتا ہے۔یہ نعمتیں اس قدر ہیں کہ انسان ساری زندگی انہیں گنتا رہے تو زندگی ختم ہوجائیگی مگر نعمتیں ختم نہیں ہونگی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کی زبان سے مذکورہ بالا الفاظ نکلیں۔مگرانسان کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ وہ صرف ان نعمتوں کونعمت شمارکرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ گویا نعمت کا مفہوم اس کے نزدیک یہ ہے کہ وہ بھلائی جو دوسروں کو پہنچی مگر اسے نہ پہنچی۔ یہ سوچ لازماً ایسے اعمال کو جنم دیگی جن کی توقع کسی خدا پرست سے نہیں کی جاسکتی ۔ بلا شبہ یہ رویہ اختیار کرنا انسان کی بدقسمتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے پاس ہر حال میں کھونے کے لیے اتنا کچھ ہوتا ہے جس کے مقابلے میں نہ ملی ہوئی یا مل کر چھن جانے والی چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر آج کل کا اہم ترین مسئلہ مالی تنگی ہے۔ لوگوں کے اخراجات آمدنی کے مقابلے میں اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے۔ ایسے میں لوگ شکوے شکایات کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔ دوسروں اور خصوصاً زیردستوں سے وہ بداخلاقی سے پیش آنے لگتے ہیں۔ آسمان والے سے بھی انہیں رنجش ہوجاتی ہے۔ ان کے مطابق اس نے انہیں دیا ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ اس سے بے پرواہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس کی شکر گزاری سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اس کی بندگی سے بے رغبت ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں کوئی ان سے دریافت کرے کہ اگر آسمان والا انہیںساری دنیا کے خزانے دیدے اور صرف ان کی آنکھیں چھین لے۔ کیا وہ یہ سودا پسند کریں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ گاڑیوں میں بیٹھیں لیکن بیساکھیوں کے سہارے؟ کیا وہ لاکھوں روپے کے ایسے بینک اکاؤنٹ رکھنا پسند کریں گے جن کی چیک بکس تو ان کے پاس ہوں مگران پر سائن کرنے والے ہاتھ نہ ہوں؟ کیا وہ چاہیں گے کہ انہیں محل و جائیداد مل جائے لیکن اولاد لے لی جائے؟ کوئی یہ نہیں چاہے گا۔ پھر لوگوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پچاس سال تک عیش و عشرت کی ایسی زندگی گزارنا پسند کریں گے جس کے بعد، زیادہ نہیں صرف پچاس ہزار سال تک جو آخرت کے ایک دن کے برابر ہیں، آگ میں جلنا پڑے؟
اگر جواب ’’نہیں ‘‘ میں ہے تو پھر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے گا کہ آپ ایک مہربان کی ناقدری مت کیجیے۔ اس کریم کی احسان فراموشی مت کریں جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا ہے ۔ جس نے بلا جبر اور بلا استحقاق ہمیں اتناکچھ دیا ہے جو کسی نے دیا ہے نہ دے سکتا ہے۔اس دنیا میں جس کو اچھی اولادملے وہ خوش نصیب گنا جاتا ہے۔ جسے اچھا شوہر یا بیوی ملے ، اچھا استاد ملے، اچھا دوست ملے، اچھا افسر ملے، اچھا ہمسایہ ملے وہ خوش قسمت شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ انسان بڑا خوش نصیب ہے کہ اسے اچھا رب مل گیا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کاواسطہ ایک ایسی ہستی سے ہے جس کی طرف سے انہیں ہر حال میں بھلائی ہی پہنچے گی۔اور یہ بھلائی وہ لوگوں کو ان کی خوبیوں کی بنا پر نہیں دیتا۔ اپنی خوبیوں کی بنا پر دیتا ہے۔
زندگی میں اور کچھ نہیں کیا تو قرآن کی صرف اس ایک آیت کو سمجھ لیں۔ یہی ایک آیت ہدایت کے لیے کافی ہے۔ یہی ایک آیت نجات کے لیے کافی ہے۔
ہزار ارب ڈالر
ہزار ارب ڈالر
(ریحان احمد یوسفی)
معروف امریکی میگزین فارچون (Fortune)نے مارچ 2007کی اپنی اشاعت میں ابو ظہبی کو دنیا کا امیر ترین ملک قرار دیا ہے۔ابو ظہبی متحدہ عرب عمارات کی سات ریاستوں میں سے سب سے بڑی ریاست اور ملک کا دارالحکومت ہے۔اس کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے جس میں سے صرف دولاکھ مقامی ہیں جبکہ باقی لوگ تیل کی دولت نکلنے کے بعد روزگار کی تلاش میں یہاں آبسے ہیں۔اس جریدے کے مطابق دنیا میں تیل کے کل ذخیرے کا دس فیصد حصہ متحدہ عرب عمارات میں پایا جاتا ہے اور اس میں سے 94فیصد ابوظہبی میں ہے۔تیل سے جو دولت حاصل ہورہی ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابوظہبی انوسٹمنٹ اتھارٹی نے ایک ہزار ارب ڈالر کی خطیر رقم دنیا بھر میں انویسٹ کررکھی ہے۔
یہ رقم یقینا بہت زیادہ ہے۔ اس کو انویسٹ کرنے والے اس سے مزید منافع کمانا چاہ رہے ہیں۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پیسے سے مزید پیسہ کماکر کیا کیا جائے گا ۔کیونکہ اسی جریدے کے مطابق متحدہ عرب عمارات کی کل دولت اتنی ہے کہ ہر شہری کے حصے میں 17ملین ڈالر کی رقم آتی ہے۔ یعنی پاکستانی حساب سے ایک ارب روپے سے زائد رقم ہر آدمی کے حصے میں آتی ہے۔ جب اتنی دولت پہلے سے موجود ہے، جو زندگی کی ہر بنیادی اور اضافی ضرورت کے لیے کافی ہے تو مزید دولت سے سوائے ایک احساسِ دولتمندی کے،اور کیا حاصل ہوگا۔
آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ لوگ صحراؤں میں گلہ بانی کرتے ، اونٹ چراتے اور کھجوریں اگاتے تھے۔ ان کے امیر ترین لوگوں کی بساط مٹی کے گھروں تک تھی۔مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اس خطے کے باشندوں پر دولت کے دروازے کھول دیے۔ بدوؤں کے قدموں سے سیال سونا بہہ نکلا۔دولت کے انبار لگ گئے۔ننگے پاؤں بکریاں چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنانے لگے۔دنیا کا ہر سامان تعیش اس خطے میں ملنے لگا اور عیش و عشرت کی ہر جگہ پر عرب نظر آنے لگے۔اس دولت کے اثرات عربوں کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم ممالک پر بھی پڑے۔ مثلاً ستر کی دہائی سے لے کر آج تک لاکھوں پاکستانیوں نے خلیجی ممالک میں روزگار حاصل کیا اور بلا مبالغہ کھربوں روپے کماکرپاکستان بھیجے۔جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ساٹھ کی دہائی میں 22خاندانوںوالا پاکستان اب وہ جگہ ہے جہاں ہزاروں ،بلکہ لاکھوں ارب پتی پائے جاتے ہیں۔
تیل سے حاصل ہونے والی یہ دولت مسلمانوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔اس کو دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ مسلمانوں میں لاکھوں ارب پتی پیدا کیے جائیں اور وہ اس پیسے سے عیش و عشرت کے سامان اکٹھے کریں۔بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ قیامت کے آنے سے قبل اسلام کا پیغام دنیا بھر میں پھیلنے لگے۔یہ کام اب کسی نبی نے نہیں کرنا بلکہ امت مسلمہ ہی کے ذریعے سے سرانجام پانا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سامراجی طاقتوں کے شکنجے سے تمام مسلم دنیا کو آزاد کرایا اور پھر مسلمانوں کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگادیے تاکہ وہ دور جدید میں دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکیں۔
مسلمان اگر اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کو سمجھتے تو وہ ہزار ارب ڈالر مغربی ممالک میں انویسٹ کرنے کے بجائے اسے مسلمانوں کی جہالت اور غربت دور کرنے پر خرچ کرتے۔یہ ہزار ارب ڈالر کی رقم اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان جیسے 50ملکوں کا سالانہ بجٹ اس میں بن سکتا ہے۔اس رقم سے جب لوگوں کو تعلیم ملتی، بنیادی ضروریاتِ زندگی حاصل ہوتیں، روزگار ملتا تو ان میں اتنا شعور بھی پیدا ہوجاتا کہ دین کے حوالے سے دنیا میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔جہالت ختم ہونے سے تعصبات ختم ہوتے۔ قرآن کا اصل پیغام عام ہوتا۔ تحمل اور برداشت پیدا ہوجاتی۔
آج بھی اس معاملے میں دیر نہیں ہوئی ہے۔ عرب نہ سہی اگر پاکستان کے امیر افراد کی ایک قابل ذکر تعداد یہ طے کرلے کہ اسے اپنی اضافی دولت خدا کے دین اور امت کی بہبود کے لیے وقف کرنی ہے تو صرف ایک نسل کے بعد سب کچھ تبدیل ہوجائے گا۔ لیکن لوگ اگر اپنی دولت سے مزید دولت کے انبار جمع کرنے کی روش پر قائم رہے تو بلاشک و شبہ ایک دفعہ پھر مسلمانوں پر وہی ذلت و رسوائی اور غلامی و بیکسی مسلط ہوجائے گی جس کا وہ پچھلی صدی کے آغاز پر شکار تھے۔
مسلمانوں اور عربوں کے پاس اس آنے والی ذلت سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ ہزار ارب ڈالر کی رقم کو اللہ تعالیٰ کے لیے انویسٹ کردیں۔اس کے نتیجے میں دولت کے ساتھ انہیں دنیا کااقتدار اور عزت بھی مل جائے گی۔ وگرنہ جو کچھ ہے، جلد ہی وہ اس سے بھی ہاتھ دھولیں گے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)