Site Search

Site Search

بے شکل انسان

Friday, March 26, 2010

 بے شکل انسان

پانی اس کرۂ ارض پر زندگی کی بنیادی وجہ ہے ۔ پانی کا زندگی کی بنیاد ہونا ہی اس کی اہمیت کا کافی بیان ہے ، لیکن اس کے علاوہ پانی میں بڑ ی بعض بڑ ی دلچسپ اور عجیب خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے ، لیکن وہ بلند ترین درخت کے آخری سرے پر پہنچ کر پتیوں کو سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ پانی ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مائع ہونے کے علاوہ اپنا کوئی متعین حجم یا شکل بھی نہیں رکھتا۔ وہ جس جگہ ہو گا اسی جگہ کے حساب سے خود کو ڈھال لے گا۔ پانی جگ میں کچھ اورشکل کا ہوتا ہے ، گلاس میں کچھ اور۔ پہاڑ ی ندی میں پانی کا انداز الگ ہوتا ہے اور میدانی دریا میں بالکل جدا۔
ہر جگہ ایک نئی شکل اختیار کر لینا پانی کا بنیادی وصف ہے ۔ اسی وجہ سے وہ ہر جگہ پہنچ کر جانداروں کی بقا اور زندگی کا سبب بن جاتا ہے ۔ تاہم انسانی معاشروں کی بقا اور زندگی پانی کی اس صفت کے بالکل برخلاف ایک دوسری صفت چاہتی ہے ۔ وہ یہ کہ انسان اپنی اخلاقی شخصیت کی صورت گری، حالات کے زیر اثر نہ کرے بلکہ اپنے اصولوں پر اپنی سیرت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے جسمانی وجود کی طرح اپنے اخلاقی وجود کو بھی ایک مستقل شکل دے ۔
جو انسان غموں میں خدا کو یاد رکھے اور خوشی میں اسے بھول جائے ۔ ۔ ۔ امیر سے مسکرا کر ملے اور غریب کے ساتھ بے رخی سے پیش آئے ۔ ۔ ۔ طاقتور کے سامنے خاموش ہوجائے اور کمزور پر اپنا غصہ اتارے۔۔۔ تنہائی میں کچھ اور ہو اور محفل میں کچھ اور، ایسا انسان اپنی کوئی مستقل شکل نہیں رکھتا بلکہ وہ پانی کی طرح وقت، حالات اور لوگوں کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔
یہ ’بے شکل انسان‘ خدا کی نظر میں ایک غیر مطلوب انسان ہے ۔ ایسا انسان دنیا میں کچھ عارضی فائدے اٹھا سکتا ہے ، مگر جنت میں وہ خدا کے ساتھ سے محروم کر دیا جائے گا۔

Posted by True Love of Islam at 3:01 AM 0 comments  

کیا اللہ اور خدا الگ الگ ہیں؟

کیا اللہ اور خدا الگ الگ ہیں؟
 (یحان احمد یوسفی)


پچھلے دنوں ایک صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔گفتگو کے دوران میں انہوں نے یہ بیان کیا کہ میری کتابیں جب وہ بعض لوگوں کو دیتے ہیں تو وہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے خدا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ خدا کا استعمال اس کی توہین کے مترادف ہے، اس لیے وہ میری کتابوں اور تحریروں کو مفید سمجھنے کے باوجود دوسروں تک نہیں پہنچاسکتے۔یہ صرف ایک ہی واقعہ نہیں ہے ۔بہت سے لوگ مجھ سے لفظ خدا کے استعمال کے بارے میں ایسی ہی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔سو قارئین آج اس مسئلے پر تفصیل سے بات کرلیتے ہیں۔

قرآن کا فیصلہ
اللہ تعالیٰ کا کیا نام درست ہے اور کیا نہیں۔ کس نام کو اس کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اور کس کو نہیں ،اس کا فیصلہ نزول قرآن کے وقت ہی ہوگیا تھا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’الرحمن‘ بیان ہوا ہے۔الرحمن کا لفظ عربی زبان کا معروف لفظ تھا جس سے مشرکین عرب واقف تھے۔تاہم ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے وہ اللہ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔جبکہ اللہ تعالیٰ کے نام کے طور پر الرحمن کا لفظ زیادہ تر اہل کتاب میں استعمال ہوتا تھا۔قرآن کریم نے بھی بعض مقامات پر اس نام کو اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے طور پر استعمال کیا۔مثلاًسورہ الرحمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الرحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے(الرحمن1-2)

جب قرآن نے لفظ الرحمن کو استعمال کیا تو مشرکین،عرب جو مخالفت پر تلے بیٹھے تھے ،انہوں نے اس بات کو اچھالنا شروع کردیا۔قرآن کریم میں مشرکین کے ردعمل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الرحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں : الرحمن کیا ہے؟کیا ہم اس چیز کوسجدہ کریں جس کا تم ہمیں حکم دیتے ہو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت کو اور بڑھا تی ہے۔(الفرقان60:25)

یہ چونکہ توحید کا مسئلہ تھا، جس کی وضاحت قرآن کا بنیادی موضوع ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ غلط فہمی دور کردی کہ اللہ کے سوا کسی اور نام سے ذات باری تعالیٰ کو پکارنا غلط ہے۔فرمایا:
اے نبی انہیں بتادوتم اللہ کہہ کر پکارو یا الرحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔(سورہ بنی اسرائیل110:17)

یہ آیت ٹھیک اس مسئلے کے بارے میں بھی ایک قطعی فیصلہ دے دیتی ہے جو لفظ خد اکے حوالے سے آج درپیش ہے۔یہ نص قطعی ہے جوصاف بیان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف الرحمن کہہ کر پکارنا درست ہے بلکہ ہر وہ اچھا نام جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے لیے کسی زبان، علاقے یا قوم میں رائج ہے، اس نام سے اللہ تعالیٰ کو پکارنا بالکل جائز ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص قوم یا علاقے کے رب نہیں،بلکہ رب العالمین ہیں۔ ان کا تصورہر گروہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔ لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر ان سب ناموں سے مراد ایک ہی ہستی ہوتی ہے۔ جسے اہل عرب نزول قرآن کے وقت اللہ کہتے تھے۔

یہ ایسا ہی ہے جیسے زمین کا تصور ہر قوم ، گروہ اور علاقے میں پایا جاتا ہے۔ مگر ہر اہل عرب اسے ارض، انگریز ارتھ اور ہم لوگ زمین کہتے ہیں۔ کیا ان تین مختلف ناموں سے زمین کے تصور میں تبدیلی آگئی؟یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کی ہے۔ اب صرف ایک سوال کا جواب باقی ہے کہ کیا ہمارے زبان میں ’خدا ‘کوئی اچھا لفظ ہے یا نہیں۔اس کا جواب ہمیں لغت میں مل جاتا ہے۔اردو ڈکشنری بورڈ کی شائع کردہ اردوزبان کی سب سے بڑی اور مستند لغت میں خدا کے لفظ کے تحت لکھا ہے:
’’بندے کے مقابل، خالق کائنات کا ذاتی نام اور خوداس کی ذات جس کے صفاتی نام ننانوے ہیں اورجو اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، وہ یکتاہے اور اس کامثل کوئی نہیں۔‘‘ 460/8

کیا اس وضاحت کے بعد لفظ خدا کے استعمال کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے۔ اردو لغت والوں نے لفظ خدا کے یہ معنی گھر بیٹھے تخلیق نہیں کیے ہیں۔اہل زبان جب کبھی لفظ خد اکو زبان سے ادا کرتے ہیں، وہ جب خدا کی قسم کھاتے ہیں، وہ جب گواہ بناتے ہیں ان کے ذہن میں اللہ کے سوا کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔کسی زبان کی اصل سند اس کے اساتذہ کا کلام ہوتا ہے ۔دیکھیے کہ اردو زبان کے اساتذہ کس طرح خدا کے لفظ کو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔میر کا شعر ہے:
اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر
پھر  ملیں     گے    اگر   خدا    لا یا
غالب کہتے ہیں:
کچھ  نہ تھا  تو خدا  تھا  کچھ  نہ  ہوتا  تو  خدا  ہوتا
ڈبویا  مجھ کو ہونے نے  نہ ہوتا  میں تو کیا  ہوتا
اقبال کہتے ہیں:
خدا  کے  بندے تو ہیں ہزاروں  بنوں میں پھرتے ہیں  مارے مارے
میں  اس  کا  بندہ  بنوں  گا   جس کو   خدا  کے   بندوں  سے  پیار   ہوگا

دور حاضر کے معروف ثناخواں شاعر مظفر وارثی کی حمد کا یہ شعر تو بچے بچے کو یاد ہے:
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے
وہی   خدا    ہے  وہی   خدا    ہے

یہ اشعار جب سنے جاتے ہیں تو ذہن میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ،کسی اور کا تصور نہیں ہوتا۔

انبیا کا طریقہ
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت اس بحث میں فیصلہ کن ہے۔ مگر ذرا اور آگے چلئے اور دیکھئے کہ انبیا کا کیا طریقہ تھا۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔یہ لفظ دو اجزا سے مرکب ہے۔ اِسر اور ایل۔قدیم عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کو ’ایل‘ کے لفظ سے پکارا جاتا تھا۔جبکہ اِسر کے معنی بندے کے ہیں۔ سو ان کے لقب اسرائیل کا مطلب ہوا ’ایل‘یعنی اللہ کا بندہ۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی۔86برس کی عمر میں ان کی دعا کے جواب میں جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹاعطا فرمایاتو آپ نے ان کا نام اسماعیل رکھا۔اس نام کا مطلب ہے کہ ’ایل‘یعنی اللہ تعالیٰ نے سنا۔

اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان انبیا کے زمانے میں اس بات پرکوئی ممانعت نہیں کی بلکہ قرآن میں ان دونوں ناموں کو ذکر کرکے قیامت تک اس حقیقت پر مہر صداقت ثبت کردی کہ کسی زبان میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو لفظ بھی رائج ہے ، اللہ تعالیٰ کو وہ قبول ہے۔ چاہے وہ عربی لفظ ہو یا عبرانی، ہندی ہو یا یونانی، اردو ہو یا فارسی۔ اللہ کی کوئی زبان نہیں۔ ساری زبانیں اسی کی ہیں۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے لیے عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے لفظ کے استعال پر کوئی اعتراض نہیں ہے وگرنہ لازماً قرآن ان پیغمبروں کے نام بدل کر استعمال کرتایاانہی پیغمبروں کے زمانے میں ان کے ناموں کی تصحیح کرادیتا۔

لفظ ’خدا ‘کے شرعی عیوب
عام طور پر یہ بیان کیا جاتاہے کہ لفظ خدا میں بڑی شرعی قباحتیں ہیں۔مثلاً یہ غیر اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کی جمع بھی استعمال ہوتی ہے۔یہ فارسی میں بدی کی طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔

آئیے لفظ خدا پر ان اعتراضات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں لفظ ’خدا ‘جب تنہا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہی ہستی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ہم نے اردو زبان میں خدا کے معنی کے تحت بیان کیا ہے۔

دوسری بات یہ کہ بدی کی طاقت کے لیے فارسی زبان میں لفظ اہرمن کا استعمال ہوتا ہے نہ کہ خدا۔خدا کا لفظ تنہا جب کبھی آتا ہے اس کے معنی کبھی بدی کے خدا کے نہیں ہوتے۔ تاہم اردو اور فارسی زبان میں لفظ خدا مالک ،بادشاہ اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اس پس منظر میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں لفظ خدا کے ساتھ کوئی اور لفظ ملتا ہے اور غیر اللہ کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔ جیسے فارسی میں بدی کی طاقت کو خدائے اہرمن کہتے ہیں۔ اسی طرح اردو زبان میں میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔اسی طرح یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ خدا کے لفظ کی جمع بھی اردو زبان میں مستعمل ہے۔

مگر کیا ان وجوہات کی بنا پر لفظ خدا کا استعمال غلط ہوگیا۔ ہر گز نہیں۔قرآ ن میں اللہ تعالیٰ کے لیے عربی کا ایک ایسا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے ،جس میں نہ صرف یہ سارے شرعی عیب پائے جاتے ہیں،بلکہ کچھ مزیدعیب ہیں جو لفظ خدا میں نہیں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کیا لفظ ہے۔

قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کو رب کہا گیا ہے۔قرآن و حدیث میں منقول بے شماردعائیں اس لفظ سے شروع ہوتی ہیں۔ مگر یہ لفظ انسان کے لیے عربی میں عام استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم نے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً سورہ یوسف میں ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام سے دو قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے تعبیر دیتے وقت ان کے آقاکے لیے جو لفظ کہا ،قرآن نے اس کے لیے ’رب‘کا لفظ استعمال کیا:
تم میں ایک اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ (یوسف41:12)

اسی آیت سے ذرا قبل ہی اس لفظ کی جمع ’’ارباب‘‘ ، اہل مصر کے ان دیوی دیوتاؤں کے لیے استعمال کی گئی ،جنہیں اہل مصر پوجتے تھے:
کیا بہت سے جدا جدا رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔(یوسف39:12)

جمع کے علاوہ اس لفظ کی مونث بھی عربی میں مستعمل ہے جبکہ لفظ خدا کم از کم اس عیب سے تو بری ہے۔ایک بہت مشہور حدیث جسے حدیثِ جبریل کہا جاتا ہے، اس کے الفاظ ہیں:
 قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی۔

جب اس سب کے باجود قرآن نے بلاجھجک اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیا ہے تو خدا کے لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ اردو زبان میں یہ لفظ اب اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہوچکا ہے۔ جسے اس بات میں شبہ ہو وہ اپنے استاد، دفتر یا دکان کے مالک یاصدرمملکت کو اس لفظ سے پکارے اور دیکھے کہ اردگرد کے لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

مسئلہ دعوتِ دین کا ہے
یہ بحث کچھ علمی رنگ لیے ہوئے ہے۔ ہم اصلاً یہ بات بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اس قسم کا نقطہ نظر اللہ تعالیٰ کو اپنا قومی معبود قرار دینے کے ہم معنی ہے۔جس کے نتیجے میں اسلامی دعوت کو زبردست نقصان پہنچے گا۔اس کے بعد ایک مسلمان جب دعوت دین کے لیے اٹھے گا تووہ کسی انگریز عیسائی کو یہ بتائے گا کہ تم جس ہستی کو Godکہتے ہو بالکل غلط ہے۔ تمہیں میرے اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ اسی طرح وہ ایک ہندو سے کہے گا کہ تم ایشور کے ماننے والے ہو جبکہ تمہیں اللہ کو ماننا چاہیے۔اس کے نتیجے میں دوسرا فریق یہ سمجھے گا کہ مجھے میرے معبود سے ہٹاکر کسی اور معبود کی طرف لایا جا رہا ہے۔پھر اس کے دل میں ایک اجنبیت اور وحشت پیدا ہوگی اور عین ممکن ہے کہ یہی اجنبیت قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔

یہی سبب ہے کہ انبیا کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔وہ کبھی نام پر بحث نہیں کرتے، شرک پر بحث کرتے ہیں۔ ان صفات پر بحث کرتے ہیں جو اللہ سے منسوب کردی جاتی ہیں۔ آپ قرآ ن میں کبھی اس گفتگوکو پڑھیے جو انبیا و رسل اور ان کی اقوام کے بیچ میں ہوئی ہے۔اس میں سارا زور توحید کو منوانے پر ہے ۔ قرآن بیان کرتا ہے کہ تمام رسول اپنی قوم کی زبان ہی بولتے تھے۔(ابراہیم4:14)۔ان رسولوں کی اقوام اپنی زبان میں یقیناً اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے پکارتی ہوں گی۔وہ رسول بھی اسی نام سے اللہ کو پکارتے تھے۔مگر وہ کہتے تھے کہ تم جسے رب العالمین مانتے ہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تنہا اسی کی عبادت کرو۔

آج ہمارے لیے بھی یہی طریقہ آئیڈیل ہے۔اور ہم اس طریقے پر تب ہی عمل کرسکتے ہیں جب ہم ظاہر پرستی سے باہر نکل کر یہ جان سکیں کہ اللہ ایک ہے اور سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔پھر یہ ممکن ہوگا کہ ایک امریکی کو ہم یہ بتاسکیں گے کہ تم God کی عبادت کرتے رہو، لیکن اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ کسی کو اس کا بیٹا اور بیوی نہ قرار دو۔ایک ہندو کو ہم بتاسکیں گے کہ یہ ٹھیک ہے کہ خالق کائنات ایشور ہی ہے مگر دیکھو اس کے ساتھ کسی دیوی دیوتا یا اوتار کو معبود نہ مانو۔

اس کے بعد وہ شخص جب اسلام قبول کرکے نماز پڑھے گا،قرآن پڑھے گا،دین کے مقرر کردہ دیگر اعمال ادا کرے گا تووہاں وہ اللہ ہی کا نام لے گا۔مگریہ حق کسی کو نہیں کہ وہ اس کی زبان بدلوانے کی کوشش کرے۔ اسے اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان میں اللہ کو جو چاہے کہہ کر پکارے۔

 کیوں کہ سارے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں۔یہ حق اسے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور کوئی اس سے اس کا یہ حق نہیں چھین سکتا۔

Posted by True Love of Islam at 2:52 AM 0 comments  

اپنا چراغ جلا ليں

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگرقيامت آجائے اورکسي کے ہاتھ درخت کي ايک قلم (شاخ) ہو اور اسے مہلت ہو تو وہ ضرور يہ قلم (شاخ)  لگادے، مسند احمد(83:3)۔يہ روايت ہميں ايک تعميري سوچ ديتي ہے۔ اس سوچ کا حامل انسان بدترين حالات ميں بھي مايوسي اور بے عملي کا شکار نہيں ہوتا۔
 
يہ بات بالکل واضح ہے کہ قيامت ايک ايسي تباہي کا نام ہے جس ميں درخت لگانا بظاہر بے فائدہ کام ہے۔ کيوں کہ درخت لگاناايک ايساعمل ہے جس کي نفع بخشي کے ليے کئي برس درکار ہوتے ہيں۔جبکہ قيامت کا زلزلہ لمحہ بھر ميں ہرچيز کو تباہ کردے گا۔ ليکن يہ روايت بتاتي ہے کہ انسان کومثبت ذہن کے ساتھ کام کرناچاہيے، چاہے اسے يقين ہو کہ اس کے کسي کام کاکوئي نتيجہ نہيں نکلنے والا۔اس کاسبب يہ ہے کہ ايک بندۂ مومن آخرت کے اجرکے ليے کام کرتاہے اوريہ اجر اصلاًاس کي نيت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ جيسے ہي وہ کسي کام کا ارادہ کرليتاہے، اس کے ليے ايک اجرثابت ہوجاتاہے۔ اور جب وہ اس کام کوکرديتا ہے تودوسرااجر ثابت ہوجاتاہے۔ اس کام سے کوئي نفع ہوناشروع ہوتاہے توتيسرے اجرکاآغازہوجاتاہے۔ اس سے يہ بات واضح ہے کہ انسان کے کسي عمل کانتيجہ اگر بظاہر نہيں بھي نکلتاتب بھي تين ميں سے دو اجر تو بہرحال انسان کومل جاتے ہيں۔ اور وہ صرف ايک اجر سے محروم رہتا ہے۔
 
  عام حالات ميں لوگ معاشرے کے بگاڑ سے پريشان ہوکر مايوس ہوجاتے ہيں اور مايوسي کي بناپرصرف منفي چيزوں کو ديکھتے ہيں اور پھر وہ ان چھوٹے چھوٹے اچھے کاموں کو بھي چھوڑديتے ہيں جنہيں وہ باآساني کرسکتے ہيں۔نتيجے کے طور پر معاشرے ميں بگاڑ بڑھتا رہتا ہے۔ مگر جب لوگ حالات کي خرابي سے بے پرواہ ہوکر اپنے حصے کا اچھا کام کرتے رہتے ہيں تو آہستہ آہستہ برائي کم ہونا اور خير پھيلنا شروع ہوجاتا ہے۔ہر آدمي اپنے حصے کا درخت لگاتا ہے اور کچھ عرصے ميں ايک چمنستان وجود ميں آجاتا ہے۔
 
  اس بات کو ايک اورمثال سے يوں سمجھاجاسکتا ہے کہ جب رات آتي ہے توسورج کي روشني ختم ہوجاتي ہے۔ ہرطرف اندھيراپھيل جاتاہے۔ ايسے ميں کسي ايک فردکاچراغ جلاناسارے اندھيرے کودور نہيں کرسکتا اور نہ ا س کا چراغ ہي سورج کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔ مگرلوگ ان چيزوں سے بے پرواہ ہوکر اپنا اپنا چراغ جلاتے ہيں۔دنيا بھرسے قطع نظر ان کے اردگرد روشني پھيلناشروع ہو جاتي ہے۔ اورجب سارے لوگ اپنے اپنے چراغ جلاتے ہيں توہرجگہ روشني پھيل جاتي ہے۔ اور اندھيرے دور ہوجاتے ہيں ۔
 
  تو اب آئيے! ماحول کے اندھيرے سے بے پرواہ ہوکر
ہم اپنا چراغ جلاليں۔ہم اپنا درخت لگاليں۔

Posted by True Love of Islam at 2:48 AM 0 comments  

Subscribe Now: google

Add to Google Reader or Homepage