Labels
- Allah (4)
- Insan (Human) (1)
- Islam (3)
- Islamic (2)
- Money (1)
- Nasihat (1)
- Rijalullah (1)
- Wazaif (1)
- الحمد للہ رب العالمین (1)
- بڑی لکیر (1)
- سکندر جب گیا دنیاسے (1)
Dua for all Muslims
Wednesday, August 4, 2010
AL-HAMDOLILLHA – YA ALLAH YA REHMAN YA RAHIM – YA ALLAH – YA AR-HAMAR RA-HEMIN – YA GAFFAR – YA KARIM – YA MALIK-UL-MULK – YA HAIYOU YA KAIYOUM – YA ZAL-JALAL-E-WAL-IKRAM
ALLAH HUMA SALLEY ALAA MUHAMMADIN ABIDIKA WA RASULIK
WA SALEY ALAL MUKIMININA WAL MUKMINAT WAL MUSLIMINA WAL MUSLIMAT
AY ALLAH
Jab jab tou apni REHMATON kay Darwazey kholey aour PUKARRY hai koi REHMAT Mmangny wala – Hai koi KHUSHIYAN mangny wala – Hai koi SHIFA mangny wala – Hai koi merey NABI SALLALLAHO ALAYHI WASSALAM ki CHAHAT mangny wala To meri dua hai k
AY ALLAH
Sari KHUSHIYAN – Sari REHMATAIN – Sari KAMYABIYAN – Sari BARKATIAN – Sari SHIFA’ATAIN – Sari MEHRBANIYAN – Sari ATAIN – Sari INAYATIAN AY mery MAULA-E-KARIM ataa farma day MUJH ko MAREY MAA BAAP ko MAREY BEWI or BACHON ko MAREY BHAIYON or BHENON ko MAREY DOSTON ko MAREY AZIZ RISHTEY DARON ko MAREY PAROSIYON ko or TMAM MUSLAMANON KO (AAMEEN)
or Ay KHALIQ-E-KAINAAT tu BARA GAFOOR or RAHEEM hay (Be’Shak) sub TAREEFAIN TERY liye hain (Be’Shak) ay marey RAB hum par RAHAM farma or Hamaisha
KABIRA-o-SAGIRA GUNHAON say – DEEN ki DOORI say – BAYROGARI say – TANGDASTI say – AAZMAISHON say – RIZQ ki KAMI say – RUSWAIYON say – QARZ wo MARZ say – WALAYDIN KI NAFARMANI say – AULAD K DUKH say – NAGAHNI AAFAT OR NAGAHANI MOUT say – QABAR K AZAB say – JAHANUM ki AAG say – HISAB KITAB k DIN (yani Roz-e-Mehshar ma) HISAB KITAB KI SAKHTI say humari hifazat farma (AAMEEN) or AY MALIK-E-ARZ-O-SAMAA jo log is DAR-e-FANI say rukhsat ho gay hain main un tamam Marhoomin ki tarf say MUAFI ka sawal karta hon or tujh say faryad karta hon k un tamam ko tu apny FAZAL-O-KARAM say MUAF farma kar apny JAWAR-e-REHMAT ma jaga aata farma (AAMEEN)
AY RAB-E-KAABAA tujhy wasta hai tarey Piyary HABIB Hazrat MUHAMMAD MUSTAFA SALLALLAHO ALAYHI WASSALAM ka or AY marey PARWARDIGAR tujy wasta hai tari RAHIMI or KARIMI ka tu mari tamam umar ki DUAON ko or jo b IBADATIAN ki hain AY marey Piyary RAB to apny FAZAL-o-KARAM say QABUL farma lay (AAMEEN)
24 Ganty k Aamal bilkhusus Ramadan-ul-Mubarak
Assalam-o-Alaikum
Din ma 24 ganty hoty hain or hum apni masrofiyat or mumalat-e-zindagi par nazar dalain to humay andaza ho ga k hum in 24 ganton ma apny Khaliq-e-Haqiqi k liye kitna waqt sarf karty hain yaqinan chand ganty to door ki baat hai hum to pury din or raat ma 1 ganta b mushkil say hi apny Parwardigar k liye guzarty hongay jab k haq to ye hai k humy duniya say ziyada waqt apny Khaliq-e-Bar Haq ko dena chahiye kiyon k ye zindagi di hoi to usi ki hai wahi hum ko paida karny wala hai. Baqol Galib k
“Jan di! Di hoi usi ki thi – Haq to ye hai k haq ada na hoa”
Behral is mail k sath 1 attachment hai “24 GANTY K MAMULAT” k naam say is ko zaroor parhy or is ma jitna mumkin ho saky us par amal karny ki koshish karain to umeed hai k kuch to apny Khaliq-e-Haqiqi ka huq ada ho jay mutlab k jo zindagi humain Rab-ul-Aalamin nay di hai us zindagi ka huq ada ho jay or Ma-e-Ramazan-ul-Mubarak ki b amad amad hai to Insha Allah irada karlain k is Ramazan-ul-Mubarak ma in Aamal ko puri koshish k sath ada karain gay Insha Allah
Aap sub ki douaon ka Talib
Was’Salam
From Islamic Info Zone
بڑی لکیر
Tuesday, June 15, 2010
بڑی لکیر
(ریحان احمد یوسفی)
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا، ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے ؟‘‘۔’’یہ ناممکن ہے ۔‘‘، کلاس کے سب سے ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑ تے ہوئے جواب دیا۔ ’’لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑ ے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں ۔‘‘ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کر دی۔ استاد نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑ ی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا تھا۔ طلبا نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑ ا سبق سیکھا تھا۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں اپنا موازنہ دوسروں سے کر کے ان سے آگے بڑ ھنا انسان کی طبیعت میں شامل ہے ۔ اس کام کو کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے ۔ مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑ ا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود کو مضبوط، طاقتور اور بڑ ا بنانے پر توجہ دی جائے ۔ دوسرے اس شکل میں بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں ، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس عمل میں انسان خود بڑ ا ہوجاتا ہے ۔
دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑ ھنا، خدا کی دنیا میں ترقی کا اصل طریقہ ہے ۔ فرد اور قوم دونوں کے لیے دیرپا اور مستقل ترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔
سکندر جب گیا دنیاسے
سکندر جب گیا دنیاسے ۔ ۔ ۔
(ریحان احمد یوسفی)
سکندرِاعظم (356ق م- 323ق م)کا شمار دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں کیا جاتا ہے ۔وہ سائرس (جسے قرآن ذوالقرنین کہتا ہے ) کے بعد پہلا شخص تھا جس نے تمام قدیم دنیا کو فتح کر کے اس پر اپنی حکومت قائم کی ۔اس کا باپ فلپ، یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حکمران تھا، مگر سکند ر نے صرف چند برسوں میں اُس تمام دنیا کو زیر وزبر کرڈالا جو یونان سے ہندوستان تک لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ۔اس کی عظیم یوریشیائی سلطنت میں چین ہی واحد متمدن خطہ تھا جو اس کی قلمرو میں شامل نہ تھا۔
سکندر کی یلغار اتنی شدید تھی کہ دارا کی عظیم ایرانی سپر پاورخس و خاشاک کی طرح اس کے سامنے بکھر کر رہ گئی۔ اس کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ رواں دریا، فلک بوس پہاڑ ، عظیم صحرا، وسیع و عریض میدانی علاقے ، بپھرے ہوئے سمندر، اندھیری راتیں ، موسلادھار بارش، کچھ بھی اس کا راستہ نہ روک سکے ۔ قدیم دنیا کے سارے خزانوں اور سارے علاقوں کا یہ مالک، صرف بتیس سال آٹھ ماہ کی عمر میں ملیریا کا شکار ہوکر ، عراق کے قدیم شہر بابل میں انتقال کرگیا۔ اس کے بعد جلد ہی اس کا بارہ سالہ بیٹا مارڈالا گیا اور اس کی نسل ختم ہوگئی۔
سکندر کی زندگی اور اس کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نمونہ قائم کیا ہے جس میں قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان ہے ۔ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے اپنے سینے میں خواہشات کا ایک طوفان لیے پھرتا ہے ۔وہ دولت ، شہرت، حکومت اور طاقت کے پیچھے بھاگتا ہے ۔کبھی وہ نامراد رہ جاتا ہے اور کبھی مقدر کا سکندر بن کر اپنی ہر خواہش پالیتا ہے ۔ مگر ایک عظیم حقیقت ایسی ہے جو کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ تی ۔ وہ یہ کہ ایک روز بہرحال اسے مرنا ہے اور اپنی آرزوؤں کی سلطنت کو چھوڑ کر اسے حقیقت کی اُس دنیا میں جانا پڑ تا ہے جس کا نام آخرت ہے ۔
انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں ۔وہ گاڑ ی ، بنگلہ اور سوناچاندی کو اپنا مقصود بنالیتے ہیں ۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک روز موت کو آنا ہے ۔ وہ آ کر رہے گی۔ 323ق م میں یہ سکندر کو آئی تھی اورایک صدی کے اندر اِس وقت تک زندہ ہر انسان کو آجائے گی۔
انسان کے لیے اہم بات یہ نہیں ہے کہ اس نے اِس دنیا میں کیا حاصل کیا۔ اسے توہر چیز سکندر کی طرح چھوڑ کر جانی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی ابدی زندگی کے لیے کیا لے کر جا رہا ہے ۔
تیری مانند کون ہے ؟
تیری مانند کون ہے ؟
(ریحان احمد یوسفی)
ایک برتر ہستی سے محبت کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ انسان چاہے نہ چاہے ، وہ کسی نہ کسی کو اپنا معبود بنانے پر مجبور ہے ۔ مگر معبود بننے کے لائق صرف ایک ہی ہستی ہے ۔ اللہ ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
انسان کا المیہ دیکھیے کہ اس نے اپنی تاریخ میں کبھی اللہ تعالیٰ کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ ہر دور میں اس نے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا ہے ۔ پھر خدا کو غیر اہم جان کر انہی کی حمد کی ہے ۔ انہی کی عظمت کے گن گائے ہیں ۔ انہی سے مدد مانگی ہے ۔ انہی کے سامنے سر جھکایا ہے ۔انہی سے محبت کی ہے ۔ انہی کے لیے روئے ہیں ۔انہی کے لیے تڑ پے ہیں۔انہی کا اعتراف کیا ہے ۔انہی کے شکر گزار بنے ہیں۔ انہی کے لیے محبت اور انہی کے لیے نفرت کی ہے ۔انہی کے نام کو آنکھوں کی روشنی اور انہی کی یادکو زبان کی مٹھاس بنایا ہے ۔
یہ سب تو اللہ کا حق ہے۔ ہر دور میں تھا ۔ ہر دور میں رہے گا۔ غیر اللہ کی عبادت اور حمد کرنے والے یہ لوگ، انبیائے بنی اسرائیل کے الفاظ میں ، اُس عورت کی مانند ہیں جو اپنے شوہر کو چھوڑ کر دوسرے مردوں کے ساتھ بدکاری کرتی ہے ۔اس کے برعکس اللہ کے رسولوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا جینا مرنا سب اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔وہ ہر مشکل میں اسی پر بھروسہ کرتے اور ہر کامیابی پر اسی کی حمد کے ترانے پڑ ھتے ہیں۔ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے عرب پر غلبہ کے بعد صفا پہاڑ پر چڑ ھ کر اللہ تعالیٰ کی جو حمد کی، اس کے الفاظ یہ ہیں :
"اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، بادشاہی اسی کی ہے اور حمد بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔"، (مسلم، رقم 1218 )
اللہ تعالیٰ نے فرعون کو جب غرق کیا اور حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو سمندر سے سلامتی کے ساتھ گزاردیا تو اس موقع پر حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی انتہائی خوبصور ت انداز میں حمد و ثنا کی ۔ اس حمد کا ایک جملہ یہ ہے :
’’معبودوں میں اے خداوند، تیری مانند کون ہے۔‘‘، (خروج 11:15)
ان دونوں پیغمبروں کی ذات رہتی دنیا تک اس بات کا بھی نمونہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے کیسے ہوتے ہیں اور ا س بات کا بھی کہ ایسے وفاداروں کو وہ کس طرح نوازتا ہے ۔مگر اس کی عطا اسی پر بس نہیں، وہ تو ایسا کریم ہے کہ لوگوں کو غیر اللہ کی پرستش کرتے دیکھتا ہے ، پھر بھی ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے بند نہیں کرتا۔
وفاداروں کو دینے والے تو بہت ہوتے ہیں ، مگر بے حیا اور بے وفا لوگوں پر رحم کرنے والی ایک ہی ہستی ہے ؛اللہ جس کے سوا کوئی رب نہیں ۔وہ جب اپنے وفاداروں کو نوازے گا تودنیا دیکھے گی۔ سواب جو جس کو چاہے اپنی وفا کا مرکز و محور بنالے۔نبیوں کے طریقے پر چلنے والے ، مرتے دم تک خد اکی محبت سے سرشار، یہی کہتے رہیں گے :
’’معبودوں میں اے خداوند، تیری مانند کون ہے۔‘‘
کتاب اﷲ اور رجال اﷲ کا تلازم
کتاب اﷲ اور رجال اﷲ کا تلازم
آج کا دورفتنوں کا دور ہے، ہر آنے والے دن میں ایک نیا فتنہ سامنے آرہا ہے لیکن ایسے ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کے لیے اب بھی کامیابی کا راستہ اور فتنوں سے بچنے کا ذریعہ موجود ہے اور وہ ذریعہ قرآن کریم ہے جو کہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔
قرآنی تعلیمات ہی ہماری دونوں جہان کی زندگی سنوارنے کی ضامن ہیں اور ان میں ہماری تمام مشکلات و مصائب کا بہترین حل موجود ہے، یہ ابن آدم کو جہنم سے بچا کر جنت میں لے جانے کا واحد ذریعہ ہے اس لئے ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس مقدس کتاب کے اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے اور ان سے سرِ مو انحراف نہ کرے۔
لیکن کتاب اﷲ تو آج بھی موجود ہے پھر کیا وجہ ہے کہ امت مسلمہ قرآنی تعلیمات سے بہت دور ہے۔ اس کی عجیب وجہ حضرت مفتی شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان رحمۃاﷲ علیہ نے معارف القرآن میں تحریر فرمائی جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ کتاب اﷲ کے ساتھ رجال اﷲ بھیجے گئے، جنہوں نے کتاب پر مکمل عمل کرکے لوگوں کی تربیت فرمائی۔ اگر محض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کو نہ بھیجا جاتا لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے دینی اسکالر ڈاکٹر اور پروفیسر کا سہارا لیتے ہیں جن کو فہم دین کے ہوا بھی نہیں لگی اور یہ امر مسلّم ہے کہ جن کی زندگی قرآن و سنت کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی نہیں ہے ان پر قرآن و حدیث کے علوم منکشف نہیں ہوسکتے اور ان کی اتباع سے بجز گمراہی کے کچھ نہیں مل سکتا۔
حضرت مفتی شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں: انسان کی تعلیم و تربیت محض کتابوں اور روایتوں سے نہیں ہوسکتی، بلکہ رجال ماہرین کی صحبت اور ان سے سیکھ کر حاصل ہوتی ہے، یعنی درحقیقت انسان کا معلّم اور مربّی انسان ہی ہوسکتا ہے، محض کتاب معلّم اور مربّی نہیں ہوسکتی، بقول اکبر مرحوم ؎
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی‘ آدمی بناتے ہیں
اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو دنیا کے تمام کاروبار میں مشاہد ہے کہ محض کتابیتعلیم سے نہ کوئی کپڑا سینا سیکھ سکتا ہے، نہ کھانا پکانا، نہ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کوکوئی ڈاکٹر بن سکتا ہے، نہ انجینئری کی کتابوں کے محض مطالعے سے کوئی انجینئر بنتاہے، اسی طرح قرآن و حدیث کا محض مطالعہ انسان کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کے لیےہرگز کافی نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو کسی محقق ماہر سے باقاعدہ حاصل نہ کیا جائے،قرآن و حدیث کے معاملے میں بہت سے پڑھے لکھے آدمی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ محض ترجمے یا تفسیر دیکھ کر وہ قرآن کے ماہر ہوسکتے ہیں، یہ بالکل فطرت کے خلاف تصور ہے، اگرمحض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، کتاب کے ساتھ رسول کو معلّم بنا کر بھیجنا اور صراط مستقیم کو متعین کرنے کے لیے اپنے مقبول بندوں کی فہرست دینا اس کی دلیل ہے کہ محض کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کے لیے کافی نہیں، بلکہ کسی ماہر سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
معلوم ہوا کہ انسان کی صلاح و فلاح کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں، ایک کتاب اﷲ جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ احکام موجود ہیں، دوسرے رجال اﷲ یعنی اﷲ والے، ان سے استفادے کی صورت یہ ہے کہ کتاب اﷲ کے معروف اصول پر رجال اﷲ کو پرکھا جائے، جو اس معیار پر نہ اتریں، ان کو رجال اﷲ ہی نہ سمجھا جائے، اور جب رجال اﷲ صحیح معنی میں حاصل ہوجائیں، تو ان سے کتاب اﷲ کے مفہوم سیکھنے اور عمل کرنے کا کام لیا جائے۔ (معارف القرآن ، ج ۱؍ ،ص۹۳)
اور صحبت اہل اﷲ کی اہمیت پر شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولاناشاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا یہ ملفوظ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ صحبت اتنی بڑی نعمت ہے کہ ایک لاکھ کتابیں پڑھنے والے میں وہ بات نہیں پائوگے جو صحبت یافتہ لوگوں سے پائو گے، دیکھئے قرآن پاک ابھی مکمل نازل نہیں ہوا صرف اقراء باسم ربک نازل ہوئی اور نبوت عطا ہوگئی۔ قرآن پاک ابھی ۲۳؍ سال میں مکمل ہوگا لیکن نبوت آپ کو ایک ہی آیت کے نزول پر مکمل عطا کی گئی۔ نبوت ناقص نہیں دی گئی کہ قرآن پاک ابھی مکمل نہیں ہوا تو نبوت تھوڑی سی دے دی گئی ہو۔ نہیں! مکمل نبوت عطا ہوئی اور ایسی مکمل ہوئی کہ جس نے آپ کو اس حالت میں دیکھا وہ صحابی ہوگیا اور مکمل صحابی ہوا ہے، ناقص صحابی نہیں ہوا۔ وہ صحابی مکمل آپ نبی مکمل اگرچہ قرآن پاک ابھی مکمل نازل نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ نبوت اور صحابیت کتاب اﷲ کی تکمیل کی تابع نہیں۔ اگر کتاب صحبت سے زیادہ اہم ہوتی تو اقرأ باسم ربک کے نزول کے وقت ایمان لانے والے صحابی نہ ہوتے بلکہ یہ ہوتا کہ ابھی تو ایک ہی آیت نازل ہوئی ہے جب پورا قرآن نازل ہوجائے گا تب صحابی بنوگے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس وقت ایمان لانے والے صحابہ کا مقام سب سے بڑھ گیا اور وہ سابقون الاولون کہلائے۔ اور آج پورا قرآن سینوں میں ہے لیکن کوئی صحابی بن کر دکھائے۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ صحبت کیا چیز ہے۔ (مواہب ربانیہ ص۵۸۲)
الحمد للہ رب العالمین
Thursday, May 20, 2010
الحمد للہ رب العالمین
(ریحان احمدیوسفی)
میرے ایک شناساکی دعا کا پہلا جملہ کچھ اس طرح ہوتا ہے:
’’یااللہ ! جس طرح مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نعمت جو مجھے یا کسی کو بھی ملی ، اس کا دینے والا صرف تو ہے ، اسی طرح مجھے اس بات کا بھی کامل یقین ہے کہ جس کو جو ملا وہ اس کی کسی خوبی کی بنا پر نہیں ملا بلکہ صرف تیری خوبیوں کی بنا پر ملاہے۔ میں تیری ہر نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیری ہر خوبی پر تیری حمد بیان کرتا ہوں۔‘‘
بلا شبہ یہ الفاظ معرفت کے الفاظ ہیں۔ یہ اس عظیم حقیقت کا اعتراف ہیں جو عالم میں چار سو پھیلی ہے۔ یہ توحید کی مکمل تعریف ہے۔ خدا کو ایک ماننا جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ اسے ہر نعمت، خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ ماناجائے ۔پہلی بات سے پہلو تہی کے نتیجے میں شرک پیدا ہوتا ہے تو دوسری بات کو فراموش کرکے انکارِ خدا یا کم از کم اعراضِ خدا کا ذہن جنم لیتا ہے۔ شرک والی بات سے تواکثر لوگ واقف ہیں مگر دوسری بات کا شعور عام نہیں اس لیے آج کل اکثر لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو ان گنت نعمتوں کے درمیان پاتا ہے۔یہ نعمتیں اس قدر ہیں کہ انسان ساری زندگی انہیں گنتا رہے تو زندگی ختم ہوجائیگی مگر نعمتیں ختم نہیں ہونگی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کی زبان سے مذکورہ بالا الفاظ نکلیں۔مگرانسان کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ وہ صرف ان نعمتوں کونعمت شمارکرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ گویا نعمت کا مفہوم اس کے نزدیک یہ ہے کہ وہ بھلائی جو دوسروں کو پہنچی مگر اسے نہ پہنچی۔ یہ سوچ لازماً ایسے اعمال کو جنم دیگی جن کی توقع کسی خدا پرست سے نہیں کی جاسکتی ۔ بلا شبہ یہ رویہ اختیار کرنا انسان کی بدقسمتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے پاس ہر حال میں کھونے کے لیے اتنا کچھ ہوتا ہے جس کے مقابلے میں نہ ملی ہوئی یا مل کر چھن جانے والی چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر آج کل کا اہم ترین مسئلہ مالی تنگی ہے۔ لوگوں کے اخراجات آمدنی کے مقابلے میں اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے۔ ایسے میں لوگ شکوے شکایات کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔ دوسروں اور خصوصاً زیردستوں سے وہ بداخلاقی سے پیش آنے لگتے ہیں۔ آسمان والے سے بھی انہیں رنجش ہوجاتی ہے۔ ان کے مطابق اس نے انہیں دیا ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ اس سے بے پرواہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس کی شکر گزاری سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اس کی بندگی سے بے رغبت ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں کوئی ان سے دریافت کرے کہ اگر آسمان والا انہیںساری دنیا کے خزانے دیدے اور صرف ان کی آنکھیں چھین لے۔ کیا وہ یہ سودا پسند کریں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ گاڑیوں میں بیٹھیں لیکن بیساکھیوں کے سہارے؟ کیا وہ لاکھوں روپے کے ایسے بینک اکاؤنٹ رکھنا پسند کریں گے جن کی چیک بکس تو ان کے پاس ہوں مگران پر سائن کرنے والے ہاتھ نہ ہوں؟ کیا وہ چاہیں گے کہ انہیں محل و جائیداد مل جائے لیکن اولاد لے لی جائے؟ کوئی یہ نہیں چاہے گا۔ پھر لوگوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پچاس سال تک عیش و عشرت کی ایسی زندگی گزارنا پسند کریں گے جس کے بعد، زیادہ نہیں صرف پچاس ہزار سال تک جو آخرت کے ایک دن کے برابر ہیں، آگ میں جلنا پڑے؟
اگر جواب ’’نہیں ‘‘ میں ہے تو پھر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے گا کہ آپ ایک مہربان کی ناقدری مت کیجیے۔ اس کریم کی احسان فراموشی مت کریں جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا ہے ۔ جس نے بلا جبر اور بلا استحقاق ہمیں اتناکچھ دیا ہے جو کسی نے دیا ہے نہ دے سکتا ہے۔اس دنیا میں جس کو اچھی اولادملے وہ خوش نصیب گنا جاتا ہے۔ جسے اچھا شوہر یا بیوی ملے ، اچھا استاد ملے، اچھا دوست ملے، اچھا افسر ملے، اچھا ہمسایہ ملے وہ خوش قسمت شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ انسان بڑا خوش نصیب ہے کہ اسے اچھا رب مل گیا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کاواسطہ ایک ایسی ہستی سے ہے جس کی طرف سے انہیں ہر حال میں بھلائی ہی پہنچے گی۔اور یہ بھلائی وہ لوگوں کو ان کی خوبیوں کی بنا پر نہیں دیتا۔ اپنی خوبیوں کی بنا پر دیتا ہے۔
زندگی میں اور کچھ نہیں کیا تو قرآن کی صرف اس ایک آیت کو سمجھ لیں۔ یہی ایک آیت ہدایت کے لیے کافی ہے۔ یہی ایک آیت نجات کے لیے کافی ہے۔
Subscribe to:
Posts (Atom)