Labels
- Allah (4)
- Insan (Human) (1)
- Islam (3)
- Islamic (2)
- Money (1)
- Nasihat (1)
- Rijalullah (1)
- Wazaif (1)
- الحمد للہ رب العالمین (1)
- بڑی لکیر (1)
- سکندر جب گیا دنیاسے (1)
Dua for all Muslims
Wednesday, August 4, 2010
AL-HAMDOLILLHA – YA ALLAH YA REHMAN YA RAHIM – YA ALLAH – YA AR-HAMAR RA-HEMIN – YA GAFFAR – YA KARIM – YA MALIK-UL-MULK – YA HAIYOU YA KAIYOUM – YA ZAL-JALAL-E-WAL-IKRAM
ALLAH HUMA SALLEY ALAA MUHAMMADIN ABIDIKA WA RASULIK
WA SALEY ALAL MUKIMININA WAL MUKMINAT WAL MUSLIMINA WAL MUSLIMAT
AY ALLAH
Jab jab tou apni REHMATON kay Darwazey kholey aour PUKARRY hai koi REHMAT Mmangny wala – Hai koi KHUSHIYAN mangny wala – Hai koi SHIFA mangny wala – Hai koi merey NABI SALLALLAHO ALAYHI WASSALAM ki CHAHAT mangny wala To meri dua hai k
AY ALLAH
Sari KHUSHIYAN – Sari REHMATAIN – Sari KAMYABIYAN – Sari BARKATIAN – Sari SHIFA’ATAIN – Sari MEHRBANIYAN – Sari ATAIN – Sari INAYATIAN AY mery MAULA-E-KARIM ataa farma day MUJH ko MAREY MAA BAAP ko MAREY BEWI or BACHON ko MAREY BHAIYON or BHENON ko MAREY DOSTON ko MAREY AZIZ RISHTEY DARON ko MAREY PAROSIYON ko or TMAM MUSLAMANON KO (AAMEEN)
or Ay KHALIQ-E-KAINAAT tu BARA GAFOOR or RAHEEM hay (Be’Shak) sub TAREEFAIN TERY liye hain (Be’Shak) ay marey RAB hum par RAHAM farma or Hamaisha
KABIRA-o-SAGIRA GUNHAON say – DEEN ki DOORI say – BAYROGARI say – TANGDASTI say – AAZMAISHON say – RIZQ ki KAMI say – RUSWAIYON say – QARZ wo MARZ say – WALAYDIN KI NAFARMANI say – AULAD K DUKH say – NAGAHNI AAFAT OR NAGAHANI MOUT say – QABAR K AZAB say – JAHANUM ki AAG say – HISAB KITAB k DIN (yani Roz-e-Mehshar ma) HISAB KITAB KI SAKHTI say humari hifazat farma (AAMEEN) or AY MALIK-E-ARZ-O-SAMAA jo log is DAR-e-FANI say rukhsat ho gay hain main un tamam Marhoomin ki tarf say MUAFI ka sawal karta hon or tujh say faryad karta hon k un tamam ko tu apny FAZAL-O-KARAM say MUAF farma kar apny JAWAR-e-REHMAT ma jaga aata farma (AAMEEN)
AY RAB-E-KAABAA tujhy wasta hai tarey Piyary HABIB Hazrat MUHAMMAD MUSTAFA SALLALLAHO ALAYHI WASSALAM ka or AY marey PARWARDIGAR tujy wasta hai tari RAHIMI or KARIMI ka tu mari tamam umar ki DUAON ko or jo b IBADATIAN ki hain AY marey Piyary RAB to apny FAZAL-o-KARAM say QABUL farma lay (AAMEEN)
24 Ganty k Aamal bilkhusus Ramadan-ul-Mubarak
Assalam-o-Alaikum
Din ma 24 ganty hoty hain or hum apni masrofiyat or mumalat-e-zindagi par nazar dalain to humay andaza ho ga k hum in 24 ganton ma apny Khaliq-e-Haqiqi k liye kitna waqt sarf karty hain yaqinan chand ganty to door ki baat hai hum to pury din or raat ma 1 ganta b mushkil say hi apny Parwardigar k liye guzarty hongay jab k haq to ye hai k humy duniya say ziyada waqt apny Khaliq-e-Bar Haq ko dena chahiye kiyon k ye zindagi di hoi to usi ki hai wahi hum ko paida karny wala hai. Baqol Galib k
“Jan di! Di hoi usi ki thi – Haq to ye hai k haq ada na hoa”
Behral is mail k sath 1 attachment hai “24 GANTY K MAMULAT” k naam say is ko zaroor parhy or is ma jitna mumkin ho saky us par amal karny ki koshish karain to umeed hai k kuch to apny Khaliq-e-Haqiqi ka huq ada ho jay mutlab k jo zindagi humain Rab-ul-Aalamin nay di hai us zindagi ka huq ada ho jay or Ma-e-Ramazan-ul-Mubarak ki b amad amad hai to Insha Allah irada karlain k is Ramazan-ul-Mubarak ma in Aamal ko puri koshish k sath ada karain gay Insha Allah
Aap sub ki douaon ka Talib
Was’Salam
From Islamic Info Zone
بڑی لکیر
Tuesday, June 15, 2010
بڑی لکیر
(ریحان احمد یوسفی)
کلاس روم میں سناٹا طاری تھا۔ طلبا کی نظریں کبھی استاد کی طرف اٹھتیں اور کبھی بلیک بورڈ کی طرف۔ استاد کے سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں تھا۔ سوال تھا ہی ایسا۔ استاد نے کمرے میں داخل ہوتے ہی بغیر ایک لفظ کہے بلیک بورڈ پر ایک لمبی لکیر کھینچ دی۔ پھر اپنا رخ طلبا کی طرف کرتے ہوئے پوچھا، ’’تم میں سے کون ہے جو اس لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دے ؟‘‘۔’’یہ ناممکن ہے ۔‘‘، کلاس کے سب سے ذہین طالبعلم نے آخر کار اس خاموشی کو توڑ تے ہوئے جواب دیا۔ ’’لکیر کو چھوٹا کرنے کے لیے اسے مٹانا پڑ ے گا اور آپ اس لکیر کو چھونے سے بھی منع کر رہے ہیں ۔‘‘ باقی طلبا نے بھی گردن ہلا کر اس کی تائید کر دی۔ استاد نے گہری نظروں سے طلبا کو دیکھا اور کچھ کہے بغیر بلیک بورڈ پر پچھلی لکیر کے متوازی مگر اس سے بڑ ی ایک اور لکیر کھینچ دی۔ جس کے بعد سب نے دیکھ لیا کہ استاد نے پچھلی لکیر کو چھوئے بغیر اسے چھوٹا کر دیا تھا۔ طلبا نے آج اپنی زندگی کا سب سے بڑ ا سبق سیکھا تھا۔ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر، ان کو بدنام کیے بغیر، ان سے حسد کیے بغیر، ان سے الجھے بغیر ان سے آگے نکل جانے کا ہنر چند منٹ میں انہوں نے سیکھ لیا تھا۔
انسان کو اللہ تعالیٰ نے جس فطرت پر پیدا کیا ہے اس میں اپنا موازنہ دوسروں سے کر کے ان سے آگے بڑ ھنا انسان کی طبیعت میں شامل ہے ۔ اس کام کو کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ دوسرے کو چھوٹا بنانے کی کوشش کی جائے ۔ مگر ایسی صورت میں انسان خود بڑ ا نہیں ہوتا۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ دوسروں سے الجھے بغیر خود کو مضبوط، طاقتور اور بڑ ا بنانے پر توجہ دی جائے ۔ دوسرے اس شکل میں بھی چھوٹے ہوجاتے ہیں ، مگر اصل بات یہ ہے کہ اس عمل میں انسان خود بڑ ا ہوجاتا ہے ۔
دوسروں سے الجھے بغیر آگے بڑ ھنا، خدا کی دنیا میں ترقی کا اصل طریقہ ہے ۔ فرد اور قوم دونوں کے لیے دیرپا اور مستقل ترقی کا یہی واحد راستہ ہے ۔
سکندر جب گیا دنیاسے
سکندر جب گیا دنیاسے ۔ ۔ ۔
(ریحان احمد یوسفی)
سکندرِاعظم (356ق م- 323ق م)کا شمار دنیا کے عظیم ترین فاتحین میں کیا جاتا ہے ۔وہ سائرس (جسے قرآن ذوالقرنین کہتا ہے ) کے بعد پہلا شخص تھا جس نے تمام قدیم دنیا کو فتح کر کے اس پر اپنی حکومت قائم کی ۔اس کا باپ فلپ، یونان کی ایک چھوٹی سی ریاست مقدونیہ کا حکمران تھا، مگر سکند ر نے صرف چند برسوں میں اُس تمام دنیا کو زیر وزبر کرڈالا جو یونان سے ہندوستان تک لاکھوں مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے ۔اس کی عظیم یوریشیائی سلطنت میں چین ہی واحد متمدن خطہ تھا جو اس کی قلمرو میں شامل نہ تھا۔
سکندر کی یلغار اتنی شدید تھی کہ دارا کی عظیم ایرانی سپر پاورخس و خاشاک کی طرح اس کے سامنے بکھر کر رہ گئی۔ اس کے حوصلے اتنے بلند تھے کہ رواں دریا، فلک بوس پہاڑ ، عظیم صحرا، وسیع و عریض میدانی علاقے ، بپھرے ہوئے سمندر، اندھیری راتیں ، موسلادھار بارش، کچھ بھی اس کا راستہ نہ روک سکے ۔ قدیم دنیا کے سارے خزانوں اور سارے علاقوں کا یہ مالک، صرف بتیس سال آٹھ ماہ کی عمر میں ملیریا کا شکار ہوکر ، عراق کے قدیم شہر بابل میں انتقال کرگیا۔ اس کے بعد جلد ہی اس کا بارہ سالہ بیٹا مارڈالا گیا اور اس کی نسل ختم ہوگئی۔
سکندر کی زندگی اور اس کی شخصیت میں اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا نمونہ قائم کیا ہے جس میں قیامت تک انسانوں کے لیے عبرت و نصیحت کا سامان ہے ۔ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے اپنے سینے میں خواہشات کا ایک طوفان لیے پھرتا ہے ۔وہ دولت ، شہرت، حکومت اور طاقت کے پیچھے بھاگتا ہے ۔کبھی وہ نامراد رہ جاتا ہے اور کبھی مقدر کا سکندر بن کر اپنی ہر خواہش پالیتا ہے ۔ مگر ایک عظیم حقیقت ایسی ہے جو کبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑ تی ۔ وہ یہ کہ ایک روز بہرحال اسے مرنا ہے اور اپنی آرزوؤں کی سلطنت کو چھوڑ کر اسے حقیقت کی اُس دنیا میں جانا پڑ تا ہے جس کا نام آخرت ہے ۔
انسانوں کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دنیا ہی میں اپنی جنت بنانا چاہتے ہیں ۔وہ گاڑ ی ، بنگلہ اور سوناچاندی کو اپنا مقصود بنالیتے ہیں ۔ وہ اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ ایک روز موت کو آنا ہے ۔ وہ آ کر رہے گی۔ 323ق م میں یہ سکندر کو آئی تھی اورایک صدی کے اندر اِس وقت تک زندہ ہر انسان کو آجائے گی۔
انسان کے لیے اہم بات یہ نہیں ہے کہ اس نے اِس دنیا میں کیا حاصل کیا۔ اسے توہر چیز سکندر کی طرح چھوڑ کر جانی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ اپنی ابدی زندگی کے لیے کیا لے کر جا رہا ہے ۔
تیری مانند کون ہے ؟
تیری مانند کون ہے ؟
(ریحان احمد یوسفی)
ایک برتر ہستی سے محبت کرنا انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ انسان چاہے نہ چاہے ، وہ کسی نہ کسی کو اپنا معبود بنانے پر مجبور ہے ۔ مگر معبود بننے کے لائق صرف ایک ہی ہستی ہے ۔ اللہ ، جس کے سوا کوئی معبود نہیں ۔
انسان کا المیہ دیکھیے کہ اس نے اپنی تاریخ میں کبھی اللہ تعالیٰ کو قابل توجہ نہیں سمجھا۔ ہر دور میں اس نے رب کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہرایا ہے ۔ پھر خدا کو غیر اہم جان کر انہی کی حمد کی ہے ۔ انہی کی عظمت کے گن گائے ہیں ۔ انہی سے مدد مانگی ہے ۔ انہی کے سامنے سر جھکایا ہے ۔انہی سے محبت کی ہے ۔ انہی کے لیے روئے ہیں ۔انہی کے لیے تڑ پے ہیں۔انہی کا اعتراف کیا ہے ۔انہی کے شکر گزار بنے ہیں۔ انہی کے لیے محبت اور انہی کے لیے نفرت کی ہے ۔انہی کے نام کو آنکھوں کی روشنی اور انہی کی یادکو زبان کی مٹھاس بنایا ہے ۔
یہ سب تو اللہ کا حق ہے۔ ہر دور میں تھا ۔ ہر دور میں رہے گا۔ غیر اللہ کی عبادت اور حمد کرنے والے یہ لوگ، انبیائے بنی اسرائیل کے الفاظ میں ، اُس عورت کی مانند ہیں جو اپنے شوہر کو چھوڑ کر دوسرے مردوں کے ساتھ بدکاری کرتی ہے ۔اس کے برعکس اللہ کے رسولوں کا طریقہ یہ ہے کہ ان کا جینا مرنا سب اللہ کے لیے ہوتا ہے ۔وہ ہر مشکل میں اسی پر بھروسہ کرتے اور ہر کامیابی پر اسی کی حمد کے ترانے پڑ ھتے ہیں۔ہمارے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے عرب پر غلبہ کے بعد صفا پہاڑ پر چڑ ھ کر اللہ تعالیٰ کی جو حمد کی، اس کے الفاظ یہ ہیں :
"اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ تنہا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ، بادشاہی اسی کی ہے اور حمد بھی اسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔"، (مسلم، رقم 1218 )
اللہ تعالیٰ نے فرعون کو جب غرق کیا اور حضرت موسیٰؑ اور ان کی قوم کو سمندر سے سلامتی کے ساتھ گزاردیا تو اس موقع پر حضرت موسیٰ نے اللہ تعالیٰ کی انتہائی خوبصور ت انداز میں حمد و ثنا کی ۔ اس حمد کا ایک جملہ یہ ہے :
’’معبودوں میں اے خداوند، تیری مانند کون ہے۔‘‘، (خروج 11:15)
ان دونوں پیغمبروں کی ذات رہتی دنیا تک اس بات کا بھی نمونہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخلص بندے کیسے ہوتے ہیں اور ا س بات کا بھی کہ ایسے وفاداروں کو وہ کس طرح نوازتا ہے ۔مگر اس کی عطا اسی پر بس نہیں، وہ تو ایسا کریم ہے کہ لوگوں کو غیر اللہ کی پرستش کرتے دیکھتا ہے ، پھر بھی ان پر اپنی نعمتوں کے دروازے بند نہیں کرتا۔
وفاداروں کو دینے والے تو بہت ہوتے ہیں ، مگر بے حیا اور بے وفا لوگوں پر رحم کرنے والی ایک ہی ہستی ہے ؛اللہ جس کے سوا کوئی رب نہیں ۔وہ جب اپنے وفاداروں کو نوازے گا تودنیا دیکھے گی۔ سواب جو جس کو چاہے اپنی وفا کا مرکز و محور بنالے۔نبیوں کے طریقے پر چلنے والے ، مرتے دم تک خد اکی محبت سے سرشار، یہی کہتے رہیں گے :
’’معبودوں میں اے خداوند، تیری مانند کون ہے۔‘‘
کتاب اﷲ اور رجال اﷲ کا تلازم
کتاب اﷲ اور رجال اﷲ کا تلازم
آج کا دورفتنوں کا دور ہے، ہر آنے والے دن میں ایک نیا فتنہ سامنے آرہا ہے لیکن ایسے ناگفتہ بہ حالات میں مسلمانوں کے لیے اب بھی کامیابی کا راستہ اور فتنوں سے بچنے کا ذریعہ موجود ہے اور وہ ذریعہ قرآن کریم ہے جو کہ ہم سب کے لیے مشعل راہ ہے۔
قرآنی تعلیمات ہی ہماری دونوں جہان کی زندگی سنوارنے کی ضامن ہیں اور ان میں ہماری تمام مشکلات و مصائب کا بہترین حل موجود ہے، یہ ابن آدم کو جہنم سے بچا کر جنت میں لے جانے کا واحد ذریعہ ہے اس لئے ایک مسلمان کا فرض ہے کہ وہ اس مقدس کتاب کے اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائے اور ان سے سرِ مو انحراف نہ کرے۔
لیکن کتاب اﷲ تو آج بھی موجود ہے پھر کیا وجہ ہے کہ امت مسلمہ قرآنی تعلیمات سے بہت دور ہے۔ اس کی عجیب وجہ حضرت مفتی شفیع صاحب مفتی اعظم پاکستان رحمۃاﷲ علیہ نے معارف القرآن میں تحریر فرمائی جو ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہے کہ کتاب اﷲ کے ساتھ رجال اﷲ بھیجے گئے، جنہوں نے کتاب پر مکمل عمل کرکے لوگوں کی تربیت فرمائی۔ اگر محض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کو نہ بھیجا جاتا لیکن آج ہمارا حال یہ ہے کہ قرآن و حدیث سمجھنے کے لیے دینی اسکالر ڈاکٹر اور پروفیسر کا سہارا لیتے ہیں جن کو فہم دین کے ہوا بھی نہیں لگی اور یہ امر مسلّم ہے کہ جن کی زندگی قرآن و سنت کے سانچہ میں ڈھلی ہوئی نہیں ہے ان پر قرآن و حدیث کے علوم منکشف نہیں ہوسکتے اور ان کی اتباع سے بجز گمراہی کے کچھ نہیں مل سکتا۔
حضرت مفتی شفیع صاحب تحریر فرماتے ہیں: انسان کی تعلیم و تربیت محض کتابوں اور روایتوں سے نہیں ہوسکتی، بلکہ رجال ماہرین کی صحبت اور ان سے سیکھ کر حاصل ہوتی ہے، یعنی درحقیقت انسان کا معلّم اور مربّی انسان ہی ہوسکتا ہے، محض کتاب معلّم اور مربّی نہیں ہوسکتی، بقول اکبر مرحوم ؎
کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں
آدمی‘ آدمی بناتے ہیں
اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ جو دنیا کے تمام کاروبار میں مشاہد ہے کہ محض کتابیتعلیم سے نہ کوئی کپڑا سینا سیکھ سکتا ہے، نہ کھانا پکانا، نہ ڈاکٹری کی کتاب پڑھ کوکوئی ڈاکٹر بن سکتا ہے، نہ انجینئری کی کتابوں کے محض مطالعے سے کوئی انجینئر بنتاہے، اسی طرح قرآن و حدیث کا محض مطالعہ انسان کی تعلیم اور اخلاقی تربیت کے لیےہرگز کافی نہیں ہوسکتا، جب تک اس کو کسی محقق ماہر سے باقاعدہ حاصل نہ کیا جائے،قرآن و حدیث کے معاملے میں بہت سے پڑھے لکھے آدمی اس مغالطے میں مبتلا ہیں کہ محض ترجمے یا تفسیر دیکھ کر وہ قرآن کے ماہر ہوسکتے ہیں، یہ بالکل فطرت کے خلاف تصور ہے، اگرمحض کتاب کافی ہوتی تو رسولوں کو بھیجنے کی ضرورت نہ تھی، کتاب کے ساتھ رسول کو معلّم بنا کر بھیجنا اور صراط مستقیم کو متعین کرنے کے لیے اپنے مقبول بندوں کی فہرست دینا اس کی دلیل ہے کہ محض کتاب کا مطالعہ تعلیم و تربیت کے لیے کافی نہیں، بلکہ کسی ماہر سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔
معلوم ہوا کہ انسان کی صلاح و فلاح کے لیے دو چیزیں ضروری ہیں، ایک کتاب اﷲ جس میں انسانی زندگی کے ہر شعبے سے متعلقہ احکام موجود ہیں، دوسرے رجال اﷲ یعنی اﷲ والے، ان سے استفادے کی صورت یہ ہے کہ کتاب اﷲ کے معروف اصول پر رجال اﷲ کو پرکھا جائے، جو اس معیار پر نہ اتریں، ان کو رجال اﷲ ہی نہ سمجھا جائے، اور جب رجال اﷲ صحیح معنی میں حاصل ہوجائیں، تو ان سے کتاب اﷲ کے مفہوم سیکھنے اور عمل کرنے کا کام لیا جائے۔ (معارف القرآن ، ج ۱؍ ،ص۹۳)
اور صحبت اہل اﷲ کی اہمیت پر شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولاناشاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم کا یہ ملفوظ آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے کہ صحبت اتنی بڑی نعمت ہے کہ ایک لاکھ کتابیں پڑھنے والے میں وہ بات نہیں پائوگے جو صحبت یافتہ لوگوں سے پائو گے، دیکھئے قرآن پاک ابھی مکمل نازل نہیں ہوا صرف اقراء باسم ربک نازل ہوئی اور نبوت عطا ہوگئی۔ قرآن پاک ابھی ۲۳؍ سال میں مکمل ہوگا لیکن نبوت آپ کو ایک ہی آیت کے نزول پر مکمل عطا کی گئی۔ نبوت ناقص نہیں دی گئی کہ قرآن پاک ابھی مکمل نہیں ہوا تو نبوت تھوڑی سی دے دی گئی ہو۔ نہیں! مکمل نبوت عطا ہوئی اور ایسی مکمل ہوئی کہ جس نے آپ کو اس حالت میں دیکھا وہ صحابی ہوگیا اور مکمل صحابی ہوا ہے، ناقص صحابی نہیں ہوا۔ وہ صحابی مکمل آپ نبی مکمل اگرچہ قرآن پاک ابھی مکمل نازل نہیں ہوا۔ معلوم ہوا کہ نبوت اور صحابیت کتاب اﷲ کی تکمیل کی تابع نہیں۔ اگر کتاب صحبت سے زیادہ اہم ہوتی تو اقرأ باسم ربک کے نزول کے وقت ایمان لانے والے صحابی نہ ہوتے بلکہ یہ ہوتا کہ ابھی تو ایک ہی آیت نازل ہوئی ہے جب پورا قرآن نازل ہوجائے گا تب صحابی بنوگے۔ لیکن ایسا نہیں ہوا بلکہ اس وقت ایمان لانے والے صحابہ کا مقام سب سے بڑھ گیا اور وہ سابقون الاولون کہلائے۔ اور آج پورا قرآن سینوں میں ہے لیکن کوئی صحابی بن کر دکھائے۔ اس سے اندازہ کیجئے کہ صحبت کیا چیز ہے۔ (مواہب ربانیہ ص۵۸۲)
الحمد للہ رب العالمین
Thursday, May 20, 2010
الحمد للہ رب العالمین
(ریحان احمدیوسفی)
میرے ایک شناساکی دعا کا پہلا جملہ کچھ اس طرح ہوتا ہے:
’’یااللہ ! جس طرح مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہر نعمت جو مجھے یا کسی کو بھی ملی ، اس کا دینے والا صرف تو ہے ، اسی طرح مجھے اس بات کا بھی کامل یقین ہے کہ جس کو جو ملا وہ اس کی کسی خوبی کی بنا پر نہیں ملا بلکہ صرف تیری خوبیوں کی بنا پر ملاہے۔ میں تیری ہر نعمت پر تیرا شکر ادا کرتا ہوں اور تیری ہر خوبی پر تیری حمد بیان کرتا ہوں۔‘‘
بلا شبہ یہ الفاظ معرفت کے الفاظ ہیں۔ یہ اس عظیم حقیقت کا اعتراف ہیں جو عالم میں چار سو پھیلی ہے۔ یہ توحید کی مکمل تعریف ہے۔ خدا کو ایک ماننا جتنا اہم ہے اتنا ہی اہم یہ ہے کہ اسے ہر نعمت، خوبی اور بھلائی کا سرچشمہ ماناجائے ۔پہلی بات سے پہلو تہی کے نتیجے میں شرک پیدا ہوتا ہے تو دوسری بات کو فراموش کرکے انکارِ خدا یا کم از کم اعراضِ خدا کا ذہن جنم لیتا ہے۔ شرک والی بات سے تواکثر لوگ واقف ہیں مگر دوسری بات کا شعور عام نہیں اس لیے آج کل اکثر لوگ اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔
انسان جب اس دنیا میں آنکھ کھولتا ہے تو وہ خود کو ان گنت نعمتوں کے درمیان پاتا ہے۔یہ نعمتیں اس قدر ہیں کہ انسان ساری زندگی انہیں گنتا رہے تو زندگی ختم ہوجائیگی مگر نعمتیں ختم نہیں ہونگی۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس کی زبان سے مذکورہ بالا الفاظ نکلیں۔مگرانسان کا معاملہ بڑا عجیب ہے۔ وہ صرف ان نعمتوں کونعمت شمارکرتا ہے جو اس کے پاس نہیں ہوتی۔ گویا نعمت کا مفہوم اس کے نزدیک یہ ہے کہ وہ بھلائی جو دوسروں کو پہنچی مگر اسے نہ پہنچی۔ یہ سوچ لازماً ایسے اعمال کو جنم دیگی جن کی توقع کسی خدا پرست سے نہیں کی جاسکتی ۔ بلا شبہ یہ رویہ اختیار کرنا انسان کی بدقسمتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ انسان کے پاس ہر حال میں کھونے کے لیے اتنا کچھ ہوتا ہے جس کے مقابلے میں نہ ملی ہوئی یا مل کر چھن جانے والی چیزوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہوتی۔
مثال کے طور پر آج کل کا اہم ترین مسئلہ مالی تنگی ہے۔ لوگوں کے اخراجات آمدنی کے مقابلے میں اتنے زیادہ ہوگئے ہیں کہ زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے۔ ایسے میں لوگ شکوے شکایات کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔ دوسروں اور خصوصاً زیردستوں سے وہ بداخلاقی سے پیش آنے لگتے ہیں۔ آسمان والے سے بھی انہیں رنجش ہوجاتی ہے۔ ان کے مطابق اس نے انہیں دیا ہی کیا ہوتا ہے۔ وہ اس سے بے پرواہ ہوتے چلے جاتے ہیں۔اس کی شکر گزاری سے منہ موڑ لیتے ہیں۔ اس کی بندگی سے بے رغبت ہو جاتے ہیں۔
ایسے میں کوئی ان سے دریافت کرے کہ اگر آسمان والا انہیںساری دنیا کے خزانے دیدے اور صرف ان کی آنکھیں چھین لے۔ کیا وہ یہ سودا پسند کریں گے؟ کیا وہ چاہیں گے کہ گاڑیوں میں بیٹھیں لیکن بیساکھیوں کے سہارے؟ کیا وہ لاکھوں روپے کے ایسے بینک اکاؤنٹ رکھنا پسند کریں گے جن کی چیک بکس تو ان کے پاس ہوں مگران پر سائن کرنے والے ہاتھ نہ ہوں؟ کیا وہ چاہیں گے کہ انہیں محل و جائیداد مل جائے لیکن اولاد لے لی جائے؟ کوئی یہ نہیں چاہے گا۔ پھر لوگوں سے یہ پوچھنا چاہیے کہ کیا وہ پچاس سال تک عیش و عشرت کی ایسی زندگی گزارنا پسند کریں گے جس کے بعد، زیادہ نہیں صرف پچاس ہزار سال تک جو آخرت کے ایک دن کے برابر ہیں، آگ میں جلنا پڑے؟
اگر جواب ’’نہیں ‘‘ میں ہے تو پھر ایسے لوگوں کی خدمت میں یہ عرض کیا جائے گا کہ آپ ایک مہربان کی ناقدری مت کیجیے۔ اس کریم کی احسان فراموشی مت کریں جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ چاہتا ہے ۔ جس نے بلا جبر اور بلا استحقاق ہمیں اتناکچھ دیا ہے جو کسی نے دیا ہے نہ دے سکتا ہے۔اس دنیا میں جس کو اچھی اولادملے وہ خوش نصیب گنا جاتا ہے۔ جسے اچھا شوہر یا بیوی ملے ، اچھا استاد ملے، اچھا دوست ملے، اچھا افسر ملے، اچھا ہمسایہ ملے وہ خوش قسمت شمار ہوتا ہے۔ قرآن کی پہلی آیت بتاتی ہے کہ انسان بڑا خوش نصیب ہے کہ اسے اچھا رب مل گیا ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ انسانوں کاواسطہ ایک ایسی ہستی سے ہے جس کی طرف سے انہیں ہر حال میں بھلائی ہی پہنچے گی۔اور یہ بھلائی وہ لوگوں کو ان کی خوبیوں کی بنا پر نہیں دیتا۔ اپنی خوبیوں کی بنا پر دیتا ہے۔
زندگی میں اور کچھ نہیں کیا تو قرآن کی صرف اس ایک آیت کو سمجھ لیں۔ یہی ایک آیت ہدایت کے لیے کافی ہے۔ یہی ایک آیت نجات کے لیے کافی ہے۔
ہزار ارب ڈالر
ہزار ارب ڈالر
(ریحان احمد یوسفی)
معروف امریکی میگزین فارچون (Fortune)نے مارچ 2007کی اپنی اشاعت میں ابو ظہبی کو دنیا کا امیر ترین ملک قرار دیا ہے۔ابو ظہبی متحدہ عرب عمارات کی سات ریاستوں میں سے سب سے بڑی ریاست اور ملک کا دارالحکومت ہے۔اس کی آبادی تقریباً دس لاکھ ہے جس میں سے صرف دولاکھ مقامی ہیں جبکہ باقی لوگ تیل کی دولت نکلنے کے بعد روزگار کی تلاش میں یہاں آبسے ہیں۔اس جریدے کے مطابق دنیا میں تیل کے کل ذخیرے کا دس فیصد حصہ متحدہ عرب عمارات میں پایا جاتا ہے اور اس میں سے 94فیصد ابوظہبی میں ہے۔تیل سے جو دولت حاصل ہورہی ہے اس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابوظہبی انوسٹمنٹ اتھارٹی نے ایک ہزار ارب ڈالر کی خطیر رقم دنیا بھر میں انویسٹ کررکھی ہے۔
یہ رقم یقینا بہت زیادہ ہے۔ اس کو انویسٹ کرنے والے اس سے مزید منافع کمانا چاہ رہے ہیں۔ مگر سمجھ میں نہیں آتا کہ اس پیسے سے مزید پیسہ کماکر کیا کیا جائے گا ۔کیونکہ اسی جریدے کے مطابق متحدہ عرب عمارات کی کل دولت اتنی ہے کہ ہر شہری کے حصے میں 17ملین ڈالر کی رقم آتی ہے۔ یعنی پاکستانی حساب سے ایک ارب روپے سے زائد رقم ہر آدمی کے حصے میں آتی ہے۔ جب اتنی دولت پہلے سے موجود ہے، جو زندگی کی ہر بنیادی اور اضافی ضرورت کے لیے کافی ہے تو مزید دولت سے سوائے ایک احساسِ دولتمندی کے،اور کیا حاصل ہوگا۔
آج سے کچھ عرصہ قبل تک یہ لوگ صحراؤں میں گلہ بانی کرتے ، اونٹ چراتے اور کھجوریں اگاتے تھے۔ ان کے امیر ترین لوگوں کی بساط مٹی کے گھروں تک تھی۔مگر پھر اللہ تعالیٰ نے اس خطے کے باشندوں پر دولت کے دروازے کھول دیے۔ بدوؤں کے قدموں سے سیال سونا بہہ نکلا۔دولت کے انبار لگ گئے۔ننگے پاؤں بکریاں چرانے والے اونچی اونچی عمارتیں بنانے لگے۔دنیا کا ہر سامان تعیش اس خطے میں ملنے لگا اور عیش و عشرت کی ہر جگہ پر عرب نظر آنے لگے۔اس دولت کے اثرات عربوں کے ساتھ ساتھ دیگر مسلم ممالک پر بھی پڑے۔ مثلاً ستر کی دہائی سے لے کر آج تک لاکھوں پاکستانیوں نے خلیجی ممالک میں روزگار حاصل کیا اور بلا مبالغہ کھربوں روپے کماکرپاکستان بھیجے۔جس کے نتیجے میں پاکستان میں بھی دولت کی ریل پیل ہوگئی۔ ساٹھ کی دہائی میں 22خاندانوںوالا پاکستان اب وہ جگہ ہے جہاں ہزاروں ،بلکہ لاکھوں ارب پتی پائے جاتے ہیں۔
تیل سے حاصل ہونے والی یہ دولت مسلمانوں کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہے۔اس کو دینے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ مسلمانوں میں لاکھوں ارب پتی پیدا کیے جائیں اور وہ اس پیسے سے عیش و عشرت کے سامان اکٹھے کریں۔بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ قیامت کے آنے سے قبل اسلام کا پیغام دنیا بھر میں پھیلنے لگے۔یہ کام اب کسی نبی نے نہیں کرنا بلکہ امت مسلمہ ہی کے ذریعے سے سرانجام پانا ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے سامراجی طاقتوں کے شکنجے سے تمام مسلم دنیا کو آزاد کرایا اور پھر مسلمانوں کے قدموں میں دولت کے ڈھیر لگادیے تاکہ وہ دور جدید میں دوسری اقوام کا مقابلہ کرسکیں۔
مسلمان اگر اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کو سمجھتے تو وہ ہزار ارب ڈالر مغربی ممالک میں انویسٹ کرنے کے بجائے اسے مسلمانوں کی جہالت اور غربت دور کرنے پر خرچ کرتے۔یہ ہزار ارب ڈالر کی رقم اتنی زیادہ ہے کہ پاکستان جیسے 50ملکوں کا سالانہ بجٹ اس میں بن سکتا ہے۔اس رقم سے جب لوگوں کو تعلیم ملتی، بنیادی ضروریاتِ زندگی حاصل ہوتیں، روزگار ملتا تو ان میں اتنا شعور بھی پیدا ہوجاتا کہ دین کے حوالے سے دنیا میں ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں۔جہالت ختم ہونے سے تعصبات ختم ہوتے۔ قرآن کا اصل پیغام عام ہوتا۔ تحمل اور برداشت پیدا ہوجاتی۔
آج بھی اس معاملے میں دیر نہیں ہوئی ہے۔ عرب نہ سہی اگر پاکستان کے امیر افراد کی ایک قابل ذکر تعداد یہ طے کرلے کہ اسے اپنی اضافی دولت خدا کے دین اور امت کی بہبود کے لیے وقف کرنی ہے تو صرف ایک نسل کے بعد سب کچھ تبدیل ہوجائے گا۔ لیکن لوگ اگر اپنی دولت سے مزید دولت کے انبار جمع کرنے کی روش پر قائم رہے تو بلاشک و شبہ ایک دفعہ پھر مسلمانوں پر وہی ذلت و رسوائی اور غلامی و بیکسی مسلط ہوجائے گی جس کا وہ پچھلی صدی کے آغاز پر شکار تھے۔
مسلمانوں اور عربوں کے پاس اس آنے والی ذلت سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے۔ وہ یہ کہ ہزار ارب ڈالر کی رقم کو اللہ تعالیٰ کے لیے انویسٹ کردیں۔اس کے نتیجے میں دولت کے ساتھ انہیں دنیا کااقتدار اور عزت بھی مل جائے گی۔ وگرنہ جو کچھ ہے، جلد ہی وہ اس سے بھی ہاتھ دھولیں گے۔
بے شکل انسان
Friday, March 26, 2010
بے شکل انسان
پانی اس کرۂ ارض پر زندگی کی بنیادی وجہ ہے ۔ پانی کا زندگی کی بنیاد ہونا ہی اس کی اہمیت کا کافی بیان ہے ، لیکن اس کے علاوہ پانی میں بڑ ی بعض بڑ ی دلچسپ اور عجیب خصوصیات پائی جاتی ہیں ۔ مثلاً یہ کہ پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے ، لیکن وہ بلند ترین درخت کے آخری سرے پر پہنچ کر پتیوں کو سیراب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ پانی ایک بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ مائع ہونے کے علاوہ اپنا کوئی متعین حجم یا شکل بھی نہیں رکھتا۔ وہ جس جگہ ہو گا اسی جگہ کے حساب سے خود کو ڈھال لے گا۔ پانی جگ میں کچھ اورشکل کا ہوتا ہے ، گلاس میں کچھ اور۔ پہاڑ ی ندی میں پانی کا انداز الگ ہوتا ہے اور میدانی دریا میں بالکل جدا۔
ہر جگہ ایک نئی شکل اختیار کر لینا پانی کا بنیادی وصف ہے ۔ اسی وجہ سے وہ ہر جگہ پہنچ کر جانداروں کی بقا اور زندگی کا سبب بن جاتا ہے ۔ تاہم انسانی معاشروں کی بقا اور زندگی پانی کی اس صفت کے بالکل برخلاف ایک دوسری صفت چاہتی ہے ۔ وہ یہ کہ انسان اپنی اخلاقی شخصیت کی صورت گری، حالات کے زیر اثر نہ کرے بلکہ اپنے اصولوں پر اپنی سیرت کی تعمیر کرے۔ وہ اپنے جسمانی وجود کی طرح اپنے اخلاقی وجود کو بھی ایک مستقل شکل دے ۔
جو انسان غموں میں خدا کو یاد رکھے اور خوشی میں اسے بھول جائے ۔ ۔ ۔ امیر سے مسکرا کر ملے اور غریب کے ساتھ بے رخی سے پیش آئے ۔ ۔ ۔ طاقتور کے سامنے خاموش ہوجائے اور کمزور پر اپنا غصہ اتارے۔۔۔ تنہائی میں کچھ اور ہو اور محفل میں کچھ اور، ایسا انسان اپنی کوئی مستقل شکل نہیں رکھتا بلکہ وہ پانی کی طرح وقت، حالات اور لوگوں کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے ۔
یہ ’بے شکل انسان‘ خدا کی نظر میں ایک غیر مطلوب انسان ہے ۔ ایسا انسان دنیا میں کچھ عارضی فائدے اٹھا سکتا ہے ، مگر جنت میں وہ خدا کے ساتھ سے محروم کر دیا جائے گا۔
کیا اللہ اور خدا الگ الگ ہیں؟
کیا اللہ اور خدا الگ الگ ہیں؟
(یحان احمد یوسفی)
پچھلے دنوں ایک صاحب ملاقات کے لیے تشریف لائے۔گفتگو کے دوران میں انہوں نے یہ بیان کیا کہ میری کتابیں جب وہ بعض لوگوں کو دیتے ہیں تو وہ اس پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کتابوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے خدا کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے لیے لفظ خدا کا استعمال اس کی توہین کے مترادف ہے، اس لیے وہ میری کتابوں اور تحریروں کو مفید سمجھنے کے باوجود دوسروں تک نہیں پہنچاسکتے۔یہ صرف ایک ہی واقعہ نہیں ہے ۔بہت سے لوگ مجھ سے لفظ خدا کے استعمال کے بارے میں ایسی ہی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔سو قارئین آج اس مسئلے پر تفصیل سے بات کرلیتے ہیں۔
قرآن کا فیصلہ
اللہ تعالیٰ کا کیا نام درست ہے اور کیا نہیں۔ کس نام کو اس کی طرف نسبت دی جاسکتی ہے اور کس کو نہیں ،اس کا فیصلہ نزول قرآن کے وقت ہی ہوگیا تھا۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ایک نام ’الرحمن‘ بیان ہوا ہے۔الرحمن کا لفظ عربی زبان کا معروف لفظ تھا جس سے مشرکین عرب واقف تھے۔تاہم ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے وہ اللہ کا لفظ استعمال کرتے تھے۔جبکہ اللہ تعالیٰ کے نام کے طور پر الرحمن کا لفظ زیادہ تر اہل کتاب میں استعمال ہوتا تھا۔قرآن کریم نے بھی بعض مقامات پر اس نام کو اللہ تعالیٰ کے ذاتی نام کے طور پر استعمال کیا۔مثلاًسورہ الرحمن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الرحمن نے اس قرآن کی تعلیم دی ہے(الرحمن1-2)
جب قرآن نے لفظ الرحمن کو استعمال کیا تو مشرکین،عرب جو مخالفت پر تلے بیٹھے تھے ،انہوں نے اس بات کو اچھالنا شروع کردیا۔قرآن کریم میں مشرکین کے ردعمل کو اس طرح بیان کیا گیا ہے:
جب ان سے کہا جاتا ہے کہ الرحمن کو سجدہ کرو تو کہتے ہیں : الرحمن کیا ہے؟کیا ہم اس چیز کوسجدہ کریں جس کا تم ہمیں حکم دیتے ہو؟ اور یہ چیز ان کی نفرت کو اور بڑھا تی ہے۔(الفرقان60:25)
یہ چونکہ توحید کا مسئلہ تھا، جس کی وضاحت قرآن کا بنیادی موضوع ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ غلط فہمی دور کردی کہ اللہ کے سوا کسی اور نام سے ذات باری تعالیٰ کو پکارنا غلط ہے۔فرمایا:
اے نبی انہیں بتادوتم اللہ کہہ کر پکارو یا الرحمن کہہ کر، جس نام سے بھی پکارو، اس کے لیے سب اچھے ہی نام ہیں۔(سورہ بنی اسرائیل110:17)
یہ آیت ٹھیک اس مسئلے کے بارے میں بھی ایک قطعی فیصلہ دے دیتی ہے جو لفظ خد اکے حوالے سے آج درپیش ہے۔یہ نص قطعی ہے جوصاف بیان کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ صرف الرحمن کہہ کر پکارنا درست ہے بلکہ ہر وہ اچھا نام جو اللہ تعالیٰ کی ہستی کے لیے کسی زبان، علاقے یا قوم میں رائج ہے، اس نام سے اللہ تعالیٰ کو پکارنا بالکل جائز ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسی خاص قوم یا علاقے کے رب نہیں،بلکہ رب العالمین ہیں۔ ان کا تصورہر گروہ اور ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔ لوگوں نے اپنی اپنی زبانوں میں اللہ تعالیٰ کے لیے مختلف الفاظ استعمال کیے ہیں۔ مگر ان سب ناموں سے مراد ایک ہی ہستی ہوتی ہے۔ جسے اہل عرب نزول قرآن کے وقت اللہ کہتے تھے۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے زمین کا تصور ہر قوم ، گروہ اور علاقے میں پایا جاتا ہے۔ مگر ہر اہل عرب اسے ارض، انگریز ارتھ اور ہم لوگ زمین کہتے ہیں۔ کیا ان تین مختلف ناموں سے زمین کے تصور میں تبدیلی آگئی؟یہی بات اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں واضح کی ہے۔ اب صرف ایک سوال کا جواب باقی ہے کہ کیا ہمارے زبان میں ’خدا ‘کوئی اچھا لفظ ہے یا نہیں۔اس کا جواب ہمیں لغت میں مل جاتا ہے۔اردو ڈکشنری بورڈ کی شائع کردہ اردوزبان کی سب سے بڑی اور مستند لغت میں خدا کے لفظ کے تحت لکھا ہے:
’’بندے کے مقابل، خالق کائنات کا ذاتی نام اور خوداس کی ذات جس کے صفاتی نام ننانوے ہیں اورجو اپنی ذات و صفات کے ساتھ ہر جگہ موجود ہے، وہ ازل سے ہے اور ابد تک رہے گا، وہ یکتاہے اور اس کامثل کوئی نہیں۔‘‘ 460/8
کیا اس وضاحت کے بعد لفظ خدا کے استعمال کے بارے میں کوئی شک و شبہ باقی رہ جاتا ہے۔ اردو لغت والوں نے لفظ خدا کے یہ معنی گھر بیٹھے تخلیق نہیں کیے ہیں۔اہل زبان جب کبھی لفظ خد اکو زبان سے ادا کرتے ہیں، وہ جب خدا کی قسم کھاتے ہیں، وہ جب گواہ بناتے ہیں ان کے ذہن میں اللہ کے سوا کسی اور کا تصور تک نہیں ہوتا۔کسی زبان کی اصل سند اس کے اساتذہ کا کلام ہوتا ہے ۔دیکھیے کہ اردو زبان کے اساتذہ کس طرح خدا کے لفظ کو اللہ تعالیٰ ہی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔میر کا شعر ہے:
اب تو جاتے ہیں بتکدے سے میر
پھر ملیں گے اگر خدا لا یا
غالب کہتے ہیں:
کچھ نہ تھا تو خدا تھا کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
اقبال کہتے ہیں:
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہوگا
دور حاضر کے معروف ثناخواں شاعر مظفر وارثی کی حمد کا یہ شعر تو بچے بچے کو یاد ہے:
کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلارہا ہے
وہی خدا ہے وہی خدا ہے
یہ اشعار جب سنے جاتے ہیں تو ذہن میں سوائے اللہ تعالیٰ کے ،کسی اور کا تصور نہیں ہوتا۔
انبیا کا طریقہ
سورۂ بنی اسرائیل کی آیت اس بحث میں فیصلہ کن ہے۔ مگر ذرا اور آگے چلئے اور دیکھئے کہ انبیا کا کیا طریقہ تھا۔حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب اسرائیل تھا۔یہ لفظ دو اجزا سے مرکب ہے۔ اِسر اور ایل۔قدیم عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کو ’ایل‘ کے لفظ سے پکارا جاتا تھا۔جبکہ اِسر کے معنی بندے کے ہیں۔ سو ان کے لقب اسرائیل کا مطلب ہوا ’ایل‘یعنی اللہ کا بندہ۔اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان عبرانی تھی۔86برس کی عمر میں ان کی دعا کے جواب میں جب اللہ تعالیٰ نے ان کو بیٹاعطا فرمایاتو آپ نے ان کا نام اسماعیل رکھا۔اس نام کا مطلب ہے کہ ’ایل‘یعنی اللہ تعالیٰ نے سنا۔
اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ان انبیا کے زمانے میں اس بات پرکوئی ممانعت نہیں کی بلکہ قرآن میں ان دونوں ناموں کو ذکر کرکے قیامت تک اس حقیقت پر مہر صداقت ثبت کردی کہ کسی زبان میں اللہ تعالیٰ کے لیے جو لفظ بھی رائج ہے ، اللہ تعالیٰ کو وہ قبول ہے۔ چاہے وہ عربی لفظ ہو یا عبرانی، ہندی ہو یا یونانی، اردو ہو یا فارسی۔ اللہ کی کوئی زبان نہیں۔ ساری زبانیں اسی کی ہیں۔ اسی سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے لیے عربی کے علاوہ کسی اور زبان کے لفظ کے استعال پر کوئی اعتراض نہیں ہے وگرنہ لازماً قرآن ان پیغمبروں کے نام بدل کر استعمال کرتایاانہی پیغمبروں کے زمانے میں ان کے ناموں کی تصحیح کرادیتا۔
لفظ ’خدا ‘کے شرعی عیوب
عام طور پر یہ بیان کیا جاتاہے کہ لفظ خدا میں بڑی شرعی قباحتیں ہیں۔مثلاً یہ غیر اللہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اردو میں اس کی جمع بھی استعمال ہوتی ہے۔یہ فارسی میں بدی کی طاقت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
آئیے لفظ خدا پر ان اعتراضات کا بھی جائزہ لے لیتے ہیں۔اس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ اردو زبان میں لفظ ’خدا ‘جب تنہا استعمال ہوتا ہے تو اس سے مراد وہی ہستی ہوتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کہتے ہیں۔ جیسا کہ اوپر ہم نے اردو زبان میں خدا کے معنی کے تحت بیان کیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ بدی کی طاقت کے لیے فارسی زبان میں لفظ اہرمن کا استعمال ہوتا ہے نہ کہ خدا۔خدا کا لفظ تنہا جب کبھی آتا ہے اس کے معنی کبھی بدی کے خدا کے نہیں ہوتے۔ تاہم اردو اور فارسی زبان میں لفظ خدا مالک ،بادشاہ اور آقا کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اس پس منظر میں اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں لفظ خدا کے ساتھ کوئی اور لفظ ملتا ہے اور غیر اللہ کے لیے استعمال ہوجاتا ہے۔ جیسے فارسی میں بدی کی طاقت کو خدائے اہرمن کہتے ہیں۔ اسی طرح اردو زبان میں میر تقی میر کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔اسی طرح یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ خدا کے لفظ کی جمع بھی اردو زبان میں مستعمل ہے۔
مگر کیا ان وجوہات کی بنا پر لفظ خدا کا استعمال غلط ہوگیا۔ ہر گز نہیں۔قرآ ن میں اللہ تعالیٰ کے لیے عربی کا ایک ایسا لفظ کثرت سے استعمال ہوا ہے ،جس میں نہ صرف یہ سارے شرعی عیب پائے جاتے ہیں،بلکہ کچھ مزیدعیب ہیں جو لفظ خدا میں نہیں ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں وہ کیا لفظ ہے۔
قرآن میں جگہ جگہ اللہ تعالیٰ کو رب کہا گیا ہے۔قرآن و حدیث میں منقول بے شماردعائیں اس لفظ سے شروع ہوتی ہیں۔ مگر یہ لفظ انسان کے لیے عربی میں عام استعمال ہوتا ہے اور قرآن کریم نے بھی استعمال کیا ہے۔ مثلاً سورہ یوسف میں ہے کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام سے دو قیدیوں نے اپنے خواب کی تعبیر پوچھی تو انہوں نے تعبیر دیتے وقت ان کے آقاکے لیے جو لفظ کہا ،قرآن نے اس کے لیے ’رب‘کا لفظ استعمال کیا:
تم میں ایک اپنے آقا کو شراب پلائے گا۔ (یوسف41:12)
اسی آیت سے ذرا قبل ہی اس لفظ کی جمع ’’ارباب‘‘ ، اہل مصر کے ان دیوی دیوتاؤں کے لیے استعمال کی گئی ،جنہیں اہل مصر پوجتے تھے:
کیا بہت سے جدا جدا رب بہتر ہیں یا وہ ایک اللہ جو سب پر غالب ہے۔(یوسف39:12)
جمع کے علاوہ اس لفظ کی مونث بھی عربی میں مستعمل ہے جبکہ لفظ خدا کم از کم اس عیب سے تو بری ہے۔ایک بہت مشہور حدیث جسے حدیثِ جبریل کہا جاتا ہے، اس کے الفاظ ہیں:
قیامت کی ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی۔
جب اس سب کے باجود قرآن نے بلاجھجک اس لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کیا ہے تو خدا کے لفظ کو اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال کرنے میں کیا چیز مانع ہے۔ یاد رہے کہ موجودہ اردو زبان میں یہ لفظ اب اللہ تعالیٰ کے لیے خاص ہوچکا ہے۔ جسے اس بات میں شبہ ہو وہ اپنے استاد، دفتر یا دکان کے مالک یاصدرمملکت کو اس لفظ سے پکارے اور دیکھے کہ اردگرد کے لوگ اس کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔
مسئلہ دعوتِ دین کا ہے
یہ بحث کچھ علمی رنگ لیے ہوئے ہے۔ ہم اصلاً یہ بات بیان کرنا چاہتے ہیں کہ اس قسم کا نقطہ نظر اللہ تعالیٰ کو اپنا قومی معبود قرار دینے کے ہم معنی ہے۔جس کے نتیجے میں اسلامی دعوت کو زبردست نقصان پہنچے گا۔اس کے بعد ایک مسلمان جب دعوت دین کے لیے اٹھے گا تووہ کسی انگریز عیسائی کو یہ بتائے گا کہ تم جس ہستی کو Godکہتے ہو بالکل غلط ہے۔ تمہیں میرے اللہ کی عبادت کرنی چاہیے۔ اسی طرح وہ ایک ہندو سے کہے گا کہ تم ایشور کے ماننے والے ہو جبکہ تمہیں اللہ کو ماننا چاہیے۔اس کے نتیجے میں دوسرا فریق یہ سمجھے گا کہ مجھے میرے معبود سے ہٹاکر کسی اور معبود کی طرف لایا جا رہا ہے۔پھر اس کے دل میں ایک اجنبیت اور وحشت پیدا ہوگی اور عین ممکن ہے کہ یہی اجنبیت قبول حق کی راہ میں رکاوٹ بن جائے۔
یہی سبب ہے کہ انبیا کا طریقہ بالکل مختلف ہوتا ہے۔وہ کبھی نام پر بحث نہیں کرتے، شرک پر بحث کرتے ہیں۔ ان صفات پر بحث کرتے ہیں جو اللہ سے منسوب کردی جاتی ہیں۔ آپ قرآ ن میں کبھی اس گفتگوکو پڑھیے جو انبیا و رسل اور ان کی اقوام کے بیچ میں ہوئی ہے۔اس میں سارا زور توحید کو منوانے پر ہے ۔ قرآن بیان کرتا ہے کہ تمام رسول اپنی قوم کی زبان ہی بولتے تھے۔(ابراہیم4:14)۔ان رسولوں کی اقوام اپنی زبان میں یقیناً اللہ تعالیٰ کو کسی نہ کسی نام سے پکارتی ہوں گی۔وہ رسول بھی اسی نام سے اللہ کو پکارتے تھے۔مگر وہ کہتے تھے کہ تم جسے رب العالمین مانتے ہو اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ تنہا اسی کی عبادت کرو۔
آج ہمارے لیے بھی یہی طریقہ آئیڈیل ہے۔اور ہم اس طریقے پر تب ہی عمل کرسکتے ہیں جب ہم ظاہر پرستی سے باہر نکل کر یہ جان سکیں کہ اللہ ایک ہے اور سارے اچھے نام اسی کے ہیں۔پھر یہ ممکن ہوگا کہ ایک امریکی کو ہم یہ بتاسکیں گے کہ تم God کی عبادت کرتے رہو، لیکن اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہراؤ۔ کسی کو اس کا بیٹا اور بیوی نہ قرار دو۔ایک ہندو کو ہم بتاسکیں گے کہ یہ ٹھیک ہے کہ خالق کائنات ایشور ہی ہے مگر دیکھو اس کے ساتھ کسی دیوی دیوتا یا اوتار کو معبود نہ مانو۔
اس کے بعد وہ شخص جب اسلام قبول کرکے نماز پڑھے گا،قرآن پڑھے گا،دین کے مقرر کردہ دیگر اعمال ادا کرے گا تووہاں وہ اللہ ہی کا نام لے گا۔مگریہ حق کسی کو نہیں کہ وہ اس کی زبان بدلوانے کی کوشش کرے۔ اسے اجازت ملنی چاہیے کہ وہ اپنی زبان میں اللہ کو جو چاہے کہہ کر پکارے۔
کیوں کہ سارے اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں۔یہ حق اسے اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور کوئی اس سے اس کا یہ حق نہیں چھین سکتا۔
اپنا چراغ جلا ليں
رسول اللہ صلي اللہ عليہ وسلم کے ايک ارشاد کا مفہوم ہے کہ اگرقيامت آجائے اورکسي کے ہاتھ درخت کي ايک قلم (شاخ) ہو اور اسے مہلت ہو تو وہ ضرور يہ قلم (شاخ) لگادے، مسند احمد(83:3)۔يہ روايت ہميں ايک تعميري سوچ ديتي ہے۔ اس سوچ کا حامل انسان بدترين حالات ميں بھي مايوسي اور بے عملي کا شکار نہيں ہوتا۔
يہ بات بالکل واضح ہے کہ قيامت ايک ايسي تباہي کا نام ہے جس ميں درخت لگانا بظاہر بے فائدہ کام ہے۔ کيوں کہ درخت لگاناايک ايساعمل ہے جس کي نفع بخشي کے ليے کئي برس درکار ہوتے ہيں۔جبکہ قيامت کا زلزلہ لمحہ بھر ميں ہرچيز کو تباہ کردے گا۔ ليکن يہ روايت بتاتي ہے کہ انسان کومثبت ذہن کے ساتھ کام کرناچاہيے، چاہے اسے يقين ہو کہ اس کے کسي کام کاکوئي نتيجہ نہيں نکلنے والا۔اس کاسبب يہ ہے کہ ايک بندۂ مومن آخرت کے اجرکے ليے کام کرتاہے اوريہ اجر اصلاًاس کي نيت کے ساتھ وابستہ ہوتا ہے۔ جيسے ہي وہ کسي کام کا ارادہ کرليتاہے، اس کے ليے ايک اجرثابت ہوجاتاہے۔ اور جب وہ اس کام کوکرديتا ہے تودوسرااجر ثابت ہوجاتاہے۔ اس کام سے کوئي نفع ہوناشروع ہوتاہے توتيسرے اجرکاآغازہوجاتاہے۔ اس سے يہ بات واضح ہے کہ انسان کے کسي عمل کانتيجہ اگر بظاہر نہيں بھي نکلتاتب بھي تين ميں سے دو اجر تو بہرحال انسان کومل جاتے ہيں۔ اور وہ صرف ايک اجر سے محروم رہتا ہے۔
عام حالات ميں لوگ معاشرے کے بگاڑ سے پريشان ہوکر مايوس ہوجاتے ہيں اور مايوسي کي بناپرصرف منفي چيزوں کو ديکھتے ہيں اور پھر وہ ان چھوٹے چھوٹے اچھے کاموں کو بھي چھوڑديتے ہيں جنہيں وہ باآساني کرسکتے ہيں۔نتيجے کے طور پر معاشرے ميں بگاڑ بڑھتا رہتا ہے۔ مگر جب لوگ حالات کي خرابي سے بے پرواہ ہوکر اپنے حصے کا اچھا کام کرتے رہتے ہيں تو آہستہ آہستہ برائي کم ہونا اور خير پھيلنا شروع ہوجاتا ہے۔ہر آدمي اپنے حصے کا درخت لگاتا ہے اور کچھ عرصے ميں ايک چمنستان وجود ميں آجاتا ہے۔
اس بات کو ايک اورمثال سے يوں سمجھاجاسکتا ہے کہ جب رات آتي ہے توسورج کي روشني ختم ہوجاتي ہے۔ ہرطرف اندھيراپھيل جاتاہے۔ ايسے ميں کسي ايک فردکاچراغ جلاناسارے اندھيرے کودور نہيں کرسکتا اور نہ ا س کا چراغ ہي سورج کا نعم البدل ہوسکتا ہے۔ مگرلوگ ان چيزوں سے بے پرواہ ہوکر اپنا اپنا چراغ جلاتے ہيں۔دنيا بھرسے قطع نظر ان کے اردگرد روشني پھيلناشروع ہو جاتي ہے۔ اورجب سارے لوگ اپنے اپنے چراغ جلاتے ہيں توہرجگہ روشني پھيل جاتي ہے۔ اور اندھيرے دور ہوجاتے ہيں ۔
تو اب آئيے! ماحول کے اندھيرے سے بے پرواہ ہوکر
ہم اپنا چراغ جلاليں۔ہم اپنا درخت لگاليں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)